پتنگ کی ڈور نے شاہدرہ کے علاقے امامیہ کالونی پھاٹک میں 7سالہ بچی معصومہ کی جان لے لی ہے۔ بچی کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ سپریم کورٹ نے پتنگ بازی کے باعث بڑھتی ہلاکتوں کی وجہ سے 2006ء میں پتنگ اڑانے، پتنگ سازی کا سامان بنانے اور فروخت کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے مگر اس کے باوجود بھی 2006ء سے 2016ء تک ہر سال 18سے 20افراد ڈور سے شہ رگ کٹنے کے باعث جاں بحق ہوتے رہے ہیں۔سابق وزیر اعلیٰ نے ڈور سے ہلاکت کی صورت میں متعلقہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کو معطل کرنے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ پولیس نے پتنگ بازوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور ایک برس کے دوران 1381افراد کو گرفتار کیا گیا ۔ پولیس نے پتنگ بازوں کے خلاف کریک ڈائون کیا اور پتنگ سازوں کو گرفتار بھی کیا گیا مگر بدقسمتی سے قاتل ڈور سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ تھم سکا یہاں تک کہ دو ایس پیز 8ڈی ایس پیز اور 17ایس ایچ اوز کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا تب جا کر صوبائی دارالحکومت میں پتنگ بازی کے رجحان میں کمی اور ہلاکتوں میں کمی آئی تھی۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت کی تساہل پسندی اور پولیس کی غفلت کی وجہ سے پتنگ کی ڈور سے ہلاکتوں میں ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے بہتر ہو گا حکومت پتنگ بازی کے انسداد کے لئے قابل عمل اقدامات کرے تاکہ بے گناہ جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔