خدا خیر کرے‘ موت کی خبریں بہت تواتر سے آ رہی ہیں۔ فیس بک پر لگتا ہے مستقل ’’پھوڑی‘‘ بچھی ہوئی ہے۔ ٹھیٹھ پنجابی میں پھوڑی اس دری کو کہتے ہیں جو دیہاتوں میں خاص طور پر فوتگی والے گھر میں کئی روز تک بچھی رہتی ہے اور روایت کے مطابق دوست احباب رشتہ دار آس پاس کے دیہات سے ملنے جلنے والے لوگ کئی روز تک لواحقین سے مرنے والے کی تعزیت کرنے آتے ہیں اور اس دری پر بیٹھتے ہیں۔ کھجور کی گٹھلیوں پر کلمہ طیبہ کا ورد بھی ہوتا ہے اور جانے والے کی خوبیوں کا تذکرہ بھی۔ گائوں کی روایتی پھوڑی اگر چودھریوں کے گھر پر ہو تو نائنوں اور میراثنوں کے بین بھی وقفے وقفے سے جاری رہتے ہیں۔ وبا کے موسم میں ناگہانی اموات اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ فیس بک پر ان دنوں ایک ’’ورچوئل پھوڑی‘‘ بچھی ہوئی ہے۔ فیس بک پر ہم ویسے ہی کم متحرک ہیں۔ اس کے استعمال پر ہمیشہ وقت کے زیاں کا احساس دل میں کھبا رہتا تھا۔ مگر ان دنوں تو فیس بک کا چکر لگانا بس دل کو بوجھل کرنا ہے۔ شناسا اور ناشناسا لوگوں کی موت کی خبروں والی پوسٹیں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ حسب توفیق لوگ اس پر انا للہ یا پھر بہت جلدی میں ہوئے تو RTP لکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کہیں کہیں مرنے والوں کی خوبیوں کا تذکرہ تفصیل سے بھی ہوتا ہے۔ موت کے ساتھ ساتھ بیماروں کی خبریں‘ وبا کا شکار ہونے والوں کی پوسٹیں نظر سے گزرتی ہیں۔ رنج‘ ملال‘ دکھ‘ افسوس‘ پریشانی‘ دعا۔ دل کتنے ہی مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ کبھی سوچتی ہے کہ فیس بک کے اس دروازے کو کچھ روز کے لیے بند کردوں لیکن کیا فیس بک کا دروازہ بند کرنے سے وبا کا موسم ٹل جائے گا۔ یا اس کے محافظ قاتل وار تھم جائیں گے۔ اور دل کو دہلانے والی یہ خبریں صرف فیس بک سے ہی تو نہیں ملتیں‘ کسی سے فون پر بات کرو تو ہر ایک کے پاس ایسی ناگہانی خبروں کا ڈھیر ہے۔ وبا کے حوالے سے کوئی نہ کوئی تلخ تجربے یا مشاہدے کی کہانی ہے۔ میرے شہر خان پور سے پے در پے قابل ڈاکٹروں کے اموات کی خبروں نے دل بہت رنجیدہ کیا۔ قابل ڈاکٹروں کی ناگہانی موت صرف ان کے خاندان کا نقصان ہی نہیں بلکہ پورے شہر کا نقصان ہے۔ چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر فلک شیر‘ نیوروسرجن ڈاکٹر مصدق‘ سینئر جنرل فزیشن ڈاکٹر امتیاز کوثر‘ سب کے سب اس وبا کے موسم میں چل بسے۔ چند ہزار والی آبادی کے اس شہر میں ان کا متبادل ڈھونڈنا مشکل ہے۔ ڈاکٹر امتیاز خان پور کے بھی مضافاتی علاقے قصبے کوٹ سمابہ میں اپنا کلینک کرتے تھے۔ پاکستان کے صف اول کے میڈیکل کالج کنگ ایڈورڈ سے تعلیم یافتہ‘ ڈاکٹر مصدق نیوروسرجن بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال سے وابستہ تھے مگر اپنے آبائی شہر خان پور میں اتوار کے روز مریضوں کو دیکھتے۔ یوں چھوٹے شہر کے باسیوں کو اتنے قابل ڈاکٹر میسر تھے۔ ان کا جانا بہت بڑا نقصان ہے۔ بھکر کے افکار علوی کا شعر یاد آتا ہے۔ خان پور کے باسی اس نقصان پر بجا طور پر کہہ سکتے ہیں: مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخص تھا مرشد وہ ایک شخص بھی تقدیر لے اڑی وبا کی بے رحم جنگ میرے ملک کے مسیحائوں کے لیے بھی بہت بھاری ثابت ہوئی ہے۔ پورے ملک سے 58 ڈاکٹروں‘ نرسوں اور پیرا میڈیکس کے عملے کی موت کی خبریں دل کو رنجیدہ کرتی ہیں۔ ایسے ایسے قابل اور جواں عمر ڈاکٹر کو یہ وبا لے اڑی کہ ان کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی بڑا نقصان ہے۔ وباء کے قاتل موسم سے نمٹنے کے لیے انتظامی طور پر جو کوتاہیاں سرزد ہوئیں‘ ان کے نتائج تو نوشتہ دیوار تھے ہم مگر سنبھلے نہیں۔ کسی ممکنہ خطرے اور نقصان نے ہماری حسیات بیدار نہیں کیں۔ ہم مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہونے کے عادی مجرم ہیں۔ ہم نے ان سپاہیوں کو بھی جنگ سے نبرد آزما ہونے کے لیے مکمل ’’جنگی ہتھیار‘‘ مہیا نہ کئے۔ ہم نے تو اگلے محاذوں پر جان ہتھیلی پر رکھے وبا کی عفریت سے لڑنے والوں کی قدر بھی نہ کی اور اپنے قیمتی افراد کو وبا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مسلسل خطرے کے ماحول میں کام کرنے والوں کے خطرہ الائونس کا اعلان کر کے ہم بری الذمہ ہو گئے۔ کیونکہ بیانات اور اعلانات کے آگے عمل کی روایت کم ہی موجود رہی ہے۔ ہم بنیادی طور پر بے قدرے لوگ ہیں۔ ہم نے اس ملک اور اس کے وسائل کی قدر نہ کی۔ ہم نے اس وقت کی قدر نہ کی جو وبا کی مصیبت آنے سے پہلے ہمارے پاس بطور غنیمت موجود تھا۔ چین و ایران میں وبا پھوٹ رہی تھی‘ ماسک اور سماجی دوری کا دور تھا۔ تو ہم مکمل نارمل زندگی گزار رہے تھے۔ وہی وقت تھا قدر کرنے کا۔ طوفان آنے سے پہلے اس کی پیش بندی کرنے کا‘ مگر ہم بے قدرے لوگ ہیں۔ وبا کے آنے سے پہلے بچائو اور پھیلائو کو محدود تر کرنے کی منصوبہ بندی اگر سرکار نے کی ہوتی تو آج ہم اتنے بڑے نقصان سے دوچار نہ ہوتے۔ وزیراعظم صاحب کو بھی وبا کے ڈھائی مہینوں کی کارگزاری کے بعد یہ خیال آیا کہ اب وہ بذات خود جائزہ لیں گے کہ کس جگہ ایس او پیز پر عمل ہورہا ہے اور کس جگہ نہیں۔ جان کی امان پائیں تو عرض کریں کہ حضور والا! یہ خیال آپ کو ڈھائی مہینے پہلے کیوں نہیں آیا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ قوم لاتوں کی بھوت ہے باتوں سے ماننے والی نہیں۔ ایس او پیز پر عملدرآمد کے قوانین پہلے روز سے سخت ہونے چاہئیں تھے اور اس کی چوکیداری پر پہلے دن سے آپ کو مامور ہونا چاہیے تھا تاکہ نیچے تک انتظامی اہلکار دیانت داری کے ساتھ چوکنے رہتے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ موت کا یہ بھیانک رقص نہ ہوتا جو آج ہورہا ہے۔ فیس بک پر مستقل ایک ’’ورچوئل پھوڑی‘‘ نہ بچھی ہوتی۔ دل اتنا بوجھل اور اداس نہ ہوتا۔