وزیراعلیٰ عثمان خان بزدار کی تبدیلی کے لیے پیپلز پارٹی کی طرف سے مہم شروع کی گئی ہے ، پی پی کے ایک ایم پی اے نے کہاکہ ن لیگ آگے آئے کہ پنجاب میں اس کی اکثریت ہے اور وزارت اعلیٰ اس کا حق ہے ۔ دوسری طرف ن لیگ کے مراعات یافتہ لوگ سردار عثمان خان بزدار پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، ایک معا صر دوست نے لکھا کہ عثمان خان بزدار نے اپنے ایک عزیز کو اسپیشل برانچ میں عہدے پر تعینات کیا ہے ۔حالانکہ یہ تعیناتی کوائف کے مطابق ہوئی اور اخبار میں اس کا اشتہار بھی آیا۔ وزیر اعلیٰ پر تنقید سے مجھے یاد آیا کہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے وزارتیں اور صوبائی محکمے ہونے کے باوجود درجنوں کمپنیاں بنائیں اور بھاری مراعات پر اپنے من پسند لوگ بھرتی کیے اور اُن پر ہر ماہ اربوں خرچ ہوتے رہے مگر اُس پر اعتراض نہ ہوا ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ طاقت ور وزیر اعلیٰ تھے ایسے موقع پر سرائیکی کی ایک کہاوت ہے کہ ’’کاوڑ ایجھی بلا اے ، ڈاڈھے تے چڑھدی نیں تے ہینڑے توں لہندی نیں ‘‘۔ افسوس ہوتا ہے جب لوگ میرٹ سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔وسیب کو طعنہ دیا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف تو برے تھے اب بتائو وسیب کے کتنے مسئلے حل ہوئے ؟ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں البتہ بے چارے تحریک انصاف والے یہ کہتے تھے کہ سول سیکرٹریٹ بن گیا ہے صوبہ بھی بن جائے گا مگر نئی صورت حال کے مطابق تحریک انصاف کے سینئر رہنما عدنان خان کی جانب سے ڈسٹرکٹ سٹی اور یوتھ ونگ کے اعزاز میں دئیے گئے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے ملک عمران ڈوگر ڈسٹرکٹ صدر خالد جاوید وڑائچ اور زہین کنول نے کہا کہ ملتان سیکرٹریٹ کے لیے آئے ہوئے سیکٹریز کا اپنے فرائض انجام نہ دینا ا ور واپس لاہور چلے جانا قابل افسوس ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو اس اہم مسئلہ پر فوری توجہ دینی چاہیے انہوں نے یہ بھی کہاکہ صوبے کے قیام کے لئے بھی اقدامات ہونے چاہئیں کہ صوبہ خطے کے لوگوں کا حق ہے۔ یہ بیان اپوزیشن نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وسیب کے لوگ کتنے خوش ہیں اور اُن کو کتنی مراعات ملیں ؟ میں برملا تسلیم کرتا ہوں کہ ہمارا شمار حکومت کے ناقدین میں ہوتا ہے کہنے کو تو یوسف رضا گیلانی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بن گئے ہیں مگر اُن کو یہ منصب اپوزیشن نہیں بلکہ حکومت کی آشیرباد سے حاصل ہوا۔ جبکہ وسیب سے تعلق رکھنے والی سرائیکی جماعتیں حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی آ رہی ہیں۔ پی پی اور (ن) لیگ کے دور میں بھی وہ اپوزیشن میں تھیں اور اب بھی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی آ رہی ہیںلیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان اور سردار عثمان خان بزدار پر محض اس وجہ سے تنقید ہو گی کہ اُن کا تعلق وسیب سے ہے تو وسیب کے لوگ یہ طرز عمل گوارا نہ کریں گے ۔اپوزیشن جہاں غلط کاموں پر تنقید کرے گی وہاں اچھے کام کی تعریف بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔جیسا کہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کی ہدایت پر وزارت اطلاعات و ثقافت پنجاب پلاک لاہور کی طرز پر سرائیکی زبان و ادب کے فروغ کے لئے سلاک کے نام سے ادارہ قائم کر رہی ہے ۔ اس سلسلے میں سیکرٹری انفارمیشن راجہ جہانگیر انور نے بتایا کہ وہ تمام سہولتیں سلا ک کو حاصل ہوں گی جو کہ پنجابی ادارے پلاک کو حاصل ہیں ۔ اور اس سلسلے میں سمری تیار ہور ہی ہے جو کہ بہت جلد وزیر اعلیٰ کو پیش کی جائے گی۔ اس کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر چولستان میں ایک اچھا کام یہ کیا گیا ہے کہ پنجاب ٹورازم میں قلعہ ڈراور کے قریب سیاحوں کے لئے ایک کمپلیکس تعمیر کیا ہے جس میں د و سو افراد کے بیٹھے کی گنجائش ہے ،سیاحوں کے لئے رہائشی کمرے اور سٹاف کے لئے رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ 95 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے ، یہ اچھا اور مثبت قدم ہے اس کے ساتھ چولستانیوں کو سہولتیں دینے اور چولستان میں نا جائز الاٹمنٹوں کے خاتمے کے لئے بھی اقدامات ہونے چاہئیں ۔اس موقع پر (ن) لیگ کے احسن اقبال کے سیاسی بیان کا ذکر بھی کروں گا کہ ملتان میں احسن اقبال نے کہاکہ ہم جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے کے حامی ہیں اور موجودہ حکومت کو صوبے کے مسئلے پر بلینک چیک دینے کے لئے تیار ہیں کہ حکومت صوبے کا بل لائے ہم حمایت کریں گے ، سوال اتنا ہے کہ جب (ن) لیگ کو قومی و صوبائی اسمبلی میں دو تہائی سے زائد اکثریت حاصل تھی تو (ن) لیگ نے صوبہ کیوں نہ بنایا؟حالانکہ (ن) لیگ نے الیکشن سے قبل اپنے منشور میں لکھا کہ ہم صوبہ بنائیں گے ، اسی بناء پر (ن) لیگ نے کامیابی حاصل کی مگر (ن) لیگ نے اپنے عہد اور اپنے منشور پر عمل نہ کیا ۔اب بھی (ن) لیگ والے دو صوبوں کی بات کر کے صوبہ بنوانا نہیں بلکہ صوبے کا مقدمہ خراب کررہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب کے لوگوں کے خلاف استعماری حربے استعمال کرنے کی بجائے خلوص نیت کے ساتھ صوبے کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔ آخر میں عالم اسلام کو شب برات کی مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں بسنے والے عیسائی بھائیوںکو ایسٹر اور ہندو برادری کو ہولی کی مبارکباد دوں گا کہ سرائیکی وسیب میں ہندو برادری نے ہولی کا تہوار منایا۔ اس موقع پر رنگوں کی برسات دیکھنے میں آئی ۔ خواتین ہم جولیوں، نوجوانوں بچوں اور بزرگوں نے ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر مبارکباد دی مٹھائیں تقسیم کی گئیں۔ ہولی کا تہوار منانے کے لیے بلوچستان اور سندھ سے بھی لوک ملتان آئے۔ ملتان میں ہندو برادری کے لوگ قلع پر موجود قدیم تاریخی عمارت پرہلاد مندر پر جانا چاہتے تھے مگر سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پولیس نے ان کو پرہلاد مندر کے اندر نہ جانے دیا۔جو کہ افسوس ناک بات ہے ، سپریم کورٹ نے پرہلاد مندر کی تعمیر کا حکم بھی دیا ہوا ہے اس پر فوری عمل ہونا چاہیے کہ لاہور کے آس پاس حکومت نے گردوارے بحال کئے ہیں اور ملتان میں اسی جگہ جہاں پرہلاد مندر ہے وہاں حملہ آور انگریزوں کی آسمان بوس قبریں بھی موجود ہیں اوران کی دیکھ بھال کے لیے حکومت کی طرف سے ہر سال فنڈز بھی آتے ہیں۔