چارلس ڈی گال نے کہا تھا’’ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں‘‘۔ لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں لیکن نظام قدرت چلتا رہتا ہے البتہ وقت کا حکمران ہو یا پھر عام شہری تاریخ ہر کسی کو اس کے کام کی بنیاد پر یاد رکھتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے علاج معالجے کی ناقص سہولیات کی شکایات پر سرکاری ہسپتالوں کے دورے شروع کئے تو ان پر حقیقت آشکار ہونا شروع ہوئی۔ جنرل ہسپتال گئے وہاں مریضوں کی بے بسی اور انتظامیہ کی بے حسی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ اہتمام حجت کے لئے انتظامیہ کو ہسپتال کے وارڈ میں اے سی ٹھیک کروانے آپریشن میں بیک لاک ختم کرنے کی ہدایات دیں پھر دوسرے ہسپتالوں کا رخ کیا۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ ہسپتال انتظامیہ ان کی ہدایات پر کتنے اخلاص اور لگن سے کام کر رہی ہے 18اگست کو بغیر کسی پروگرام کے جنرل ہسپتال پہنچ گئے وارڈزدیکھیںتو پہلے کی طرح بیڈز کے نیچے اینٹیںتھیں اے سی خراب ہونے کی وجہ سے مریضوں کا سانس لینا محال تھا۔ وارڈ میں علاج معالجے کی بابت دریافت کیا تو مہنگے ٹیسٹوں اور آپریشن موخر ہونے کی شکایات ہر زبان پر تھیں۔ ہڈی وارڈ میں دو بزرگ خواتین نے بین کرنا شروع کر دیئے۔ وزیر اعلیٰ نے ہفتہ پہلے کے احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے بے حسی دیکھی تو ایم ایس جنرل ہسپتال اور ہڈی وارڈ کے پروفیسرڈاکٹرمحمد حنیف کو معطل کر دیا اور بیک لاک ختم کرنے اور آپریشن موخر نہ کرنے تلقین کر کے اگلے ہسپتال کا احوال دیکھنے نکل پڑے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعلیٰ کے اس اقدام کی تحسین کی جاتی اور اس کے مثبت اثرات کی تشہیر کی جاتی مگر بدقسمتی سے یہاں بھی قلم حقائق کی عکاسی کے بجائے ذاتی تعلقات کے لئے اٹھا اور 7ستمبر کو ایک دوست نے ڈاکٹر حنیف کے معطل کئے جانیکے بعد دعویٰ کیا کہ ان کے جانے کے بعد جنرل ہسپتال میں ریڑھ کی ہڈی کے مریضوں کے آپریشن بند کر دیے گئے ہیں اور مریضوں کو بغیر آپریشن کے ڈسچارج کر دیا گیا اس لئے غریب جھولیاں اٹھا اٹھا کر وزیراعلیٰ کو کو س رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ بھی رہی کہ اس حوالے سے جنرل ہسپتال یا پھر وارڈ کی انتظامیہ سے بھی بات کرنا مناسب نہ سمجھی گئی اور دوستی نبھانے کے چکر میں حقائق سے صرف نظر برتا گیا۔ اس مفر نہیں کہ جنرل ہسپتال میں ریڑھ کی ہڈی کے پیچیدہ آپریشن کا شعبہ ڈاکٹر حنیف نے قائم کیا تھا اور ڈاکٹر حنیف درد دل رکھنے والے شریف النفس انسان ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے فرائض اور ذمہ داریاں اس قدر ہوتی ہیں کہ ہر آپریشن ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نہیں کرتے بلکہ ہر کام کے لئے ٹیم تشکیل دی جاتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن ڈاکٹر صاحب کی نگرانی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مدثر، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حامد، ڈاکٹر خضر غالب اور ڈاکٹر رضوان کی نگرانی میں متعلقہ ٹیم کیا کرتی تھیں اور آج بھی کر رہی ہے۔ مندرجہ بالا ڈاکٹر مدثر سے لے ڈاکٹر رضوان تک تمام ڈاکٹر صاحبان کنسلٹنٹ اور اس شعبہ کے سند یافتہ ماہر ہیں اور ڈاکٹر حنیف کے بعد ایک ماہ میں 20کے قریب آپریشن کر چکے ہیں۔ یہ بات بھی ہسپتال کے ریکارڈ پر ہے کہ جنرل ہسپتال میں ریڑھ کی ہڈی کے مرض میں مبتلا کسی مریض کو بغیر آپریشن کے ڈسچارج نہیں کیا گیا بلکہ وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے دورہ کے بعد ہسپتال میں مریضوں کی شکایات میں کمی کے ساتھ علاج معالجہ میں بھی بہتری آئی ہے اگر صرف ہڈی وارڈ کی بات کی جائے تو وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایک ماہ کی قلیل مدت میں بیک لاک ختم کر دیا گیا ہے۔ جنرل ہسپتال شعبہ ہڈی میں دو یونٹ تھے ڈاکٹر حنیف کے معطل کئے جانے کے بعد یونٹ ون کی نگرانی بھی یونٹ ٹو پروفیسر کر رہے ہیں۔ پروفیسر صاحبان دن رات نہ صرف اس بات کو یقینی بنانے میں جتے ہیں کہ وارڈ میں داخل ہر مریض کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے بلکہ اس بات کو یقینی بناجائے کہ آئندہ کسی کا آپریشن موخر ہو نہ کسی مریض کو تاخیر کی وجہ سے پرائیویٹ ہسپتال جانے پر مجبو نہ ہونا پڑے۔ اس حوالے سے کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ متعد ڈاکٹروں کو مریض پرائیویٹ ہسپتال لے جانے پر وارنگ ایشو کی گئی ہے وارڈ کے ایسے تمام ملازمین جو مریضوں کو پرائیویٹ ہسپتال میں آپریشن کروانے پر قائل کرتے اور ڈاکٹروں سے حصہ وصول کرتے تھے ان کو تبدیل کرنے کیلئے ہسپتال انتظامیہ سے درخواست بھی کی ہے۔ کوئی آپریشن ڈی لسٹ نہ ہو اس لئے آرتھوپیڈک سرجری کے لئے تین کے بجائے چھ آپریشن تھیٹر مختص کروانے کے لئے بھی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔یہاں یہ بات بھی وزیراعلیٰ کی توجہ کی مستحق ہے کہ دنیا بھر میں صرف جنرل ہی واحد ہسپتال جہاں ایک تھیٹر میں ہڈی اور گردے کے آپریشن کئے جاتے ہیں جس سے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ اگر یورالوجی کے لئے الگ آپریشن تھیٹر مختص کرنے کے احکامات جاری کر دیں تو مریضوں کو انفیکشن سے بچایا اور بیک لاک بھی ختم ہو سکتا ہے۔ انہی سطور میں پہلے بھی ہسپتال میں مافیاز کا ذکر کیا تھا وزیراعلیٰ کے دورہ کے بعد پارکنگ فیس 30 روپے کے بجائے 10 روپے وصول کی جا رہی ہے فوٹو کاپی کے نرح بھی مارکیٹ کے مطابق لئے جا رہے ہیں چائے اور کھانے پینے کی اشیاء کے نرح بھی کم ہوئے ہیں۔ مافیاز صرف پارکنگ اور کنٹین کی آڑ میں لوٹ مار کرنے والے ہی نہیں بلکہ کچھ ڈاکٹرز بھی چھوٹے عملے کے ساتھ مل کر سرکاری ہسپتال سے مریضوں کو پرائیویٹ ہسپتال میں آپریشن کرکے ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مریضوں کی بہتری کے لئے سخت رویہ کی پاداش میں انتظامیہ کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں ان مافیاز کا قلع قمع اسی صورت ممکن ہے کہ وزیر اعلیٰ افسر شاہی کی چکنی چپڑی سننے کے بجائیہسپتالوں بالخصوص جنرل ہسپتال کا بار بار دورہ کریں۔مریضوں کو سنیںاور ہسپتال ریکارڈ کو دیکھ کر تبدیلی کو محسوس کریں اور ہسپتال میں دھڑا بندی اور سازشوں کے سدباب کے لئے اقدامات کریں۔ یقین مانیے اگر وزیر اعلیٰ کے دو بار جنرل ہسپتال جانے سے پارکنگ اور کنٹین مافیا ہتھیار ڈال سکتا ہے تو ڈرگ مافیا اور سفید کوٹ میں چھپے قصائی بھی پسپائی اختیار کرنے اور مریضوں کی خدمت پر مجبور ضرور ہوسکتے ہیں۔ شرط صرف وزیر اعلیٰ کے دورہ کے بعد کے جنرل ہسپتال کا مشاہدہ ہے۔