وزیراعظم عمران خان نے آٹے کی قیمت میں استحکام لانے کے لیے سرکاری گندم فوری طور پر مارکیٹ میں لانے کی ہدایت کی ہے۔ عام آدمی کے لیے سستے آٹے کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے وزیراعظم نے سستے بازار کھولنے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ افسر شاہی نے سرکاری گندم اکتوبر میں باہر لانے کا مشورہ دیا لیکن چار ماہ تک لوگوں کو بھوکا نہیں رکھا جاسکتا۔ دیگر اہم فیصلوں کے ساتھ وزیراعظم نے دوسرا اہم فیصلہ نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کے ہر گھر پر 3 لاکھ سبسڈی دینے کے متعلق کیا۔ انہوں نے تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری پر ذرائع آمدن نہ پوچھنے کی یقین دہانی کرائی۔ رواں برس جنوری میں جب پہلی بار ملک میں آٹے کی قلت اور مارکیٹ میں اس کی عدم موجودگی کی اطلاعات آنے لگیں تو گندم کی نئی فصل تیار ہونے میں تین ماہ باقی تھے۔ اس موقع پر حکومت کے لیے دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ فوری طور پر سرکاری گوداموں میں ذخیرہ کی گئی گندم مارکیٹ میں لائے اور کھلی منڈی میں گندم کی قلت دور کرے۔ دوسرا حل یہ تھا کہ انتظامی سطح پر بہتری کے انتظامات کئے جاتے۔ ان اقدامات میں گندم کی افغانستان کو سمگلنگ روکنا‘ فلور ملز کے سٹاک اور آٹے کی تیاری کا ریکارڈ دیکھنا اور اس امر کا جائزہ لینا تھا کہ کہیں کھلی مارکیٹ میں ذخیرہ اندوز گروہ تو سرگرم نہیں ہو چکے۔ فوری طور پر جو انکوائری کروائی گئی اس میں بتایا گیا کہ مرکز اور صوبوں نے گزرے برس گندم خریداری کا ہدف پورا نہیں کیا تھا۔ ایک الزام حکومت پر دھرا گیا کہ اس نے غیر ضروری طور پر کچھ ہفتے قبل گندم کی فروخت کی اجازت دی۔ گندم اور آٹا بحران کا شاخسانہ یہ نکلا کہ وزیر خوراک خسرو بختیار اور متعدد دیگر مرکز و پنجاب کے وزراء اور افسران کو تبدیل کیا گیا۔ حکومت کے پاس درست اعداد و شمار تک نہ تھے۔ اس موقع پر ایک حکومتی مشیر نے چار لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا اعلان کیا۔ گندم کی قلت کی خبروں کے ساتھ ہی فلور ملز نے آٹے کے نرخ بڑھانا شروع کردیئے۔ مئی 2020ء تک نئی فصل آنے کے باوجود گندم میں خودکفیل پاکستان میں قلت کا تاثر دے کر آٹا مہنگا کیا جاتا رہا۔ اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کھلی مارکیٹ سے آٹا غائب ہوگیا۔ حکومت نے گھوسٹ فلور ملز کے خلاف کارروائی کی تو بحران مزید شدید بنا دیا گیا۔ خرابیاں بتدریج سامنے آتی رہی ہیں۔ پرانے ذخیرہ کو استعمال نہ کرنا‘ ذخائر کی گنجائش کم ہونا‘ گندم خریداری کے لیے بینکوں سے بھاری قرض اور اس کی برآمد کا طریقہ کار نقائص سے بھرا ہے۔ یہ نقائص دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی صرف گندم کی دستیابی کو اہمیت دے کر مسئلہ حل کرنے کا چارہ کیا جاتا ہے یوں خرابی برقرار رہتی ہے۔ سرکاری گوداموں سے گندم جاری کرنے سے فوری طور پر آٹے کے نرخ کم کرنے میں سہولت مل سکتی ہے لیکن دوسری خرابیوں کی اصلاح نہ کی گئی تو کچھ عرصے بعد یہ مسئلہ پھر سر اٹھا لے گا۔ کورونا کی وبا کا سب سے زیادہ اثر انسانوں کی نقل و حرکت محدود ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ لاک ڈائون کے دوران حکومت نے افلاس زدہ طبقات کی مدد کے لیے احساس کفالت پروگرام شروع کیا لیکن بیرونی امداد اور داخلی وسائل محدود ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہ تھا کہ غیر معینہ مدت تک اربوں روپے کی امداد کا سلسلہ جاری رکھا جاتا۔ آخر اپریل کے ماہ میں وزیراعظم نے تعمیراتی شعبہ کھولنے کا اعلان کیا۔ و زیراعظم کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ دیہاڑی دار چونکہ اس شعبے سے منسلک ہیں لہٰذا تعمیراتی سرگرمیوں کی بحالی سے ان کو بھوک سے بچایا جا سکتا ہے۔ تعمیراتی شعبے کو بند رکھنے سے وزیراعظم کے عوام کو سستا گھر فراہم کرنے کے وعدے میں تاخیر کا اندیشہ بھی تھا۔ وزیراعظم کی جانب سے نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے قبل ازیں ایک پیکیج دیا جا چکا ہے جس کے تحت سرمایہ کاروں سے ان کی دولت کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔ اس بار انہوں نے اس منصوبے کے ہر گھر کے لیے تین لاکھ کی سرکاری سبسڈی دینے کا اعلان کرکے پیداواری لاگت میں اضافہ سے نمٹنے کی خاطر 32 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ اس سے بے گھر افراد کو جہاں کم قیمت پر معیاری رہائش کی سہولت میسر آئے گی وہاں کورونا کے باعث بے کار ہونے والے محنت کشوں کو روزگار کی فراہمی کا انتظام کیا جا سکے گا۔ کم نرخوں پر آٹے کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے سرکاری گندم مارکیٹ میں لانے اور بے گھر افراد کے لیے رہائش کی سستی سہولیات کا انتظام کرنا حکومت کی ان ترجیحات کا پتہ دیتے ہیں جن کاتعلق عام آدمی اور نچلے طبقات کے مسائل کم کرنے سے ہے۔ اس موقع پر یہ امر ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ بیڈ گورننس اور مفاداتی مافیاز نے ہمیشہ حکومتوں کے اچھے منصوبوں کو سبوتاژ کیا ہے۔وزیراعظم بہت سے معاملات کی خودنگرانی کا عزم رکھتے ہیں۔ اس ارادے کی تحسین کی جانی چاہیے لیکن خرابی کا حجم بڑھنے میں اگر بدانتظامی دکھائی دے تو اس کی ذمہ داری بھی حکومت کے سر ہوتی ہے۔ سستے گھروں کے منصوبے اور آٹے کی کم نرخوں پرفراہمی کے عمل کے دوران بدانتظامی کا خاتمہ نہ ہو سکا تو وزیراعظم کی محنت پر پانی پھر سکتا ہے۔