وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں صوبے کو نظر انداز کرنے اور بلوچستان کے منصوبوں کو زیر التوا رکھنے کے خلاف اجلاس سے احتجاجاً واک آئوٹ کر دیا ۔بلوچستان کا آبادی اور رقبے کے تناسب کا خلا صوبے کی تعمیر و ترقی میں سب سے بڑی مشکل قرار دیا جاتا ہے کیونکہ عوام چھوٹے چھوٹے قصبوں میں سینکڑوں کلو میٹر کے فاصلے پر آباد ہیں اسلئے حکومت کیلئے دور دراز علاقوں میں بنیادی سہولیات فراہم کرنا مشکل ہوتا ہے ۔اسکے علاوہ ماضی میں حکومتیں صوبے کے ترقیاتی فنڈز ترقی منصوبوں کے بجائے مقامی قبائلی سرداروں کو فراہم کرتی رہی ہیں جن کے مناسب استعمال پر بھی سوالات اٹھتے رہے ۔سابق صدر مشرف کے دور میںوفاق نے فنڈز قبائلی سرداروں کے بجائے منصوبوں پر خرچ کرنے کا فیصلہ کرتے وقت کہا تھا کہ ایسا کرنے سے بلوچ عوام کی محرومیاں کم کرنے میں مدد ملیگی اور یقینا ایسا ہوا بھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی بلوچستان ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے اور وفاق اور دوسرے صوبے ہمیشہ بلوچستان کی ضروریات پوری کرنے پر بخوشی آمادہ بھی رہے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کا نصف سے زیادہ منصوبوں کو زیر التوا رکھنے پر احتجا ج باعث تشویش ہے ۔بہتر ہو گا وفاقی حکومت بلوچ عوام کی ترقی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے بلوچستان کے فنڈز میں قابل قدر اضافہ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے تحفظات پر ہمدردانہ غور کرے تاکہ بلوچستان کی تعمیر و ترقی کو یقینی بنا یا جا سکے۔