بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال کو وزیراعظم عمران خان نے ناراض ارکان کے تحفظات دور کرنے اور اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی ہے۔ جمعرات کے روز جام کمال نے عدم اعتماد اور پارٹی صدارت کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر سے بھی ملاقات کی۔ جام کمال نے چیف الیکشن کمشنر کو ایک درخواست جمع کرائی جس میں واضح کیا کہ انہوں نے پارٹی صدارت سے استعفیٰ نہیں دیا اور بدستور صدر ہیں۔ بعدازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ جام کمال نے کہا کہ ظہور بلیدی بلوچستان عوامی پارٹی کے غیر قانونی قائم مقام صدر ہیں۔ بلوچستان میں سرداری اور قبائلی نظام عام آدمی کی زندگی آسان بنانے میں ناکام رہا ہے۔ تاریخی طور پر یہ ثابت ہوا ہے کہ مرکز میں کسی جماعت یا آمر کی حکومت ہو بلوچستان کے معاملات اپنے حق میں رکھنے کے لیے عوام اور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی بجائے سرداروں کو آلہ کار بنایا جاتا ہے۔ یہ لوگ منتخبئے ہیں۔ آسانی سے اپنے حلقے سے جیت جاتے ہیں‘ اپنے مقابل کسی کو کھڑا ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ صوبے کا انتظامی ڈھانچہ اور ترقیاتی انفراسٹرکچر صرف ان کی مرضی کے مطابق تشکیل دیا جاتا ہے۔ جب تک یہ منتخبئے مطمئن رہیں صوبائی حکومت برقرار رہتی ہے۔بی اے پی دو ہزار اٹھارہ میں قائم کی گئی ۔اس میں بیشتر ایسے اراکین شامل ہوئے تھے جو اپنی اپنی نشستیں آسانی سے جیت سکتے تھے۔ یہی اراکین اگر مسلم لیگ نون میں شامل ہو جاتے تو بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہو جاتی اور اگر پیپلز پارٹی میں چلے جائیں تو پھر حکومت پیپلز پارٹی کی قائم ہو جائے ۔ان میں ایسے اراکین بھی شامل ہیں جو اپنے آپ کو پکے مسلم لیگی کہلواتے ہیں لیکن اب بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہو کر ان پر بھی کسی حد تک قوم پرستی کی چھاپ لگ گئی ہے۔جام کمال نے عملی سیاست کا آغاز بلدیاتی انتخابات سے کیا۔ سنہ 2001 میں وہ اپنے آبائی ضلع لسبیلہ کے ناظم بن گئے۔وہ دوسری مرتبہ سنہ 2005 سے 2008 تک ضلع لسبیلہ کے ناظمبنے۔ سنہ 2013 میں اپنے والد جام محمد یوسف کی وفات کے بعد وہ جام آف لسبیلہ بن گئے۔انھوں نے سنہ 2013 کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔جام کمال سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دور میں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ جنوری دو ہزار اٹھارہ میں بلوچستان میں ن لیگ میں بغاوت اور اس کی قیادت میں بلوچستان میں حکومت کے خاتمے کے بعد جام کمال نے اپریل میں کابینہ سے مستعفی ہونے کے علاوہ ن لیگ سے علیحدگی اختیار کر لی۔انھیں عام انتخابات سے ایک ماہ قبل بلوچستان کی سطح پر بننے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کا سربراہ منتخب کر لیا گیا۔اس جماعت کی سربراہی کے لئے دوسرا نام قدوس بزنجو کا تھا ۔2018 کے عام انتخابات میں وہ ضلع لسبیلہ میں اپنے آبائی نشست سے پہلی مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔24 ارکین کے ساتھ نہ صرف جام کمال کی جماعت بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی بلکہ پانچ دیگر جماعتوں کی حمایت سے ان کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ بھی ہموار ہو گئی۔وہ جام آف لسبیلہ خاندان سے بننے والے تیسرے وزیر اعلیٰ ہیں۔اس سے قبل ان کے والد جام یوسف سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں ق لیگ سے 2002 سے2007 تک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے جبکہ سابق فوجی آمر ضیاء الحق کے دور میں ان کے دادا جام غلام قادر بھی 80 کی دہائی میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے۔جام کمال نے کئی لحاظ سے اصلاحات کا آغاز کیا۔ اگرچہ وہ خود سردار ہیں لیکن انہوں نے وزیراعلیٰ ہائوس کو ایک کھلے پنڈال سے نظم و ضبط والے مقام میں بدل دیا۔ ان سے پہلے وزیراعلیٰ ہائوس میں آنے کے لیے اور وزیراعلیٰ سے ملاقات کے لیے کسی سے وقت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ جام کمال نے اپنی مصروفیات کے اوقات ترتیب دے کر ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی جو قبائلی سوچ کے الٹ ہے۔ ان کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو ذاتی صلاحیت کی بنیاد پر انتخاب جیتتے ہیں۔ جام کمال اور قدوس بزنجو کے درمیان مسابقت نے پہلے دن سے ’’باپ‘‘ کو ابھرنے نہیں دیا۔اس جماعت پر اسٹیبلشمنٹ کی حامی ہونے کا الزام لگتا رہا۔سینٹ الیکشن میں اس کا کردار زیر بحث رہا۔ کچھ عرصہ قبل اپوزیشن کی جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد تکنیکی بنیاد پر مسترد قرار پائی تھی‘ اب ناراض ارکان کی جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر جام کمال کی پارٹی صدارت اور وزارت اعلیٰ دونوں دائو پرلگی ہیں۔ آثار بتاتے ہیں کہ بلوچستان کے معاملات پر مرکز نے خود کو غیر جانبدار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک اتحادی جماعت کے داخلی معاملات میں مداخلت یقینا غیر مناسب ہو گی اور اس سے اپوزیشن کو مرکزی حکومت کے خلاف غیر ضروری شکایات کا موقع ملے گا تاہم بلوچستان میں جام کمال کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کی صورت میں معاملات مزید الجھائو کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے لیے کسی دوسرے رکن کو وزیراعلیٰ بنانے کی کوشش پر پارٹی کے اندر اسی طرح مخالفت جاری رہ سکتی ہے۔ بلوچستان افغانستان اور ایران کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں سی پیک منصوبے اور گوادر پورٹ کے معاملات ہیں۔ بہتر ہوگا کہ معاملات کو صرف صوبے کی سطح پر نہ دیکھا جائے، ریاستی مفاد کے پس منظر میں اہمیت دی جائے اور اس معاملے کو اتفاق رائے سے حل کیا جائے۔