محبت ہی عجب شے ہے کہ جب بازی پہ آتی ہے تو سب کچھ جیت لیتی ہے یا سب کچھ ہار دیتی ہے محبت مار دیتی ہے نفرت کا جذبہ تو اس سے کہیں زیادہ زور دار ہوتا ہے، وہ تو محبت کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ سیاست میں ہارجیت تو ہوتی رہتی ہے۔ وہی اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں۔ اتنا کیا بگڑنا کہ بدن بولی ہی سے سب کچھ عیاں ہونے لگے۔ سعد رفیق فرماتے ہیں کہ وہ عمران خان کو دن میں تارے دکھا دیں گے۔ میں آپ ان کے عزم و استقلال ہی کا اندازہ نہیں لگا سکتے بلکہ ان کی ناآسودہ خواہشات کی اذیت کا بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ کوئی سعد سے پوچھے بھائی جان اب آپ سے خان برداشت کیوں نہیں ہورہا۔ شاید اس لیے کہ نوازشریف، حواری اس کو درخوراعتنا بھی نہیں سمجھتے تھے کہ اس کی کسی بات کا نوٹس لیا جائے یا مکالمہ کیا جائے اور صورت حال رہی جارسید کہ سب کی نگاہوں کا مرکز وہی بنا بیٹھا ہے۔ وہ بڑھ چڑھ کر آپ لوگوں سے سلام لے رہا ہے اور آپ کہتے ہم ’’ہم باز آئے ایسی محبت سے۔ کوئی تھوڑی سی وضعداری، کوئی رکھ رکھائو اور کچھ اخلاقیات۔ دو ویں کم ای اوکھے ہوندے جت کے لڑنا ہار کے بہنا جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ عمران کو دن کے وقت تارے دکھا دیں گے تو آپ کے باطن میں ضرور ایک خواہش پل رہی ہے کہ آپ کوئی نیا چاند چڑھائیں گے یا پھر کوئی گل کھلائیں گے۔ آپ لوگوں کی گردن سے لوہے کا سریا ابھی تک نہیں نکلا۔ آپ کی ہر بات ہی میں لوہے کا تذکرہ ملتا ہے حتیٰ کہ چنے بھی آپ کے لوہے کے ہیں۔ سارا کام ہی لوہے کا ہے۔ آپ کے بیانیہ میں بھی نادیدہ طاقتوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا تذکرہ ملتا ہے۔ آپ ہی کی وجہ سے لاہور لوہے کا شہر بن گیا۔ ہر منصوبے میں لوہا اور ہر لوہے پرمنصوبہ۔ ہم تو آپ کے پہلے دن ہی سے قائل ہیں کہ آپ نے اپنا لوہا منوایا اور لوہے کو سونا بنایا۔ لیکن شہباز کو پتہ ہونا چاہیے کہ بیٹریاں بھی لوہے سے بنتی ہیں اور لوہے کے پروں سے اڑا نہیں جاسکتا۔ دوسری طرف اسد قیصر نے کہا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے اور خورشید شاہ نے کہا ہے کہ مفید قانون سازی میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ ن لیگ اب بھی پھر پھڑا رہی ہے لیکن اب اس کے پر کٹ چکے ہیں اور یہ بھی انہوں نے خود ہی کٹوائے ہیں۔ چوری اور سینہ زوری۔ لوگوں کے ذہنوں پر یہ تاثر گہرا ہو گیا تھا کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی زبان وہ بول رہے ہیں اور انہیں پاکستان کی بقا سے کوئی سروکار نہیں۔ وہی کہ اسی نہیں تے فیر کوئی وی نہیں۔ خیر ان باتوں کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ نوازشریف کی تصاویر اٹھا کر نعرے بازی کرنے سے کیا ملے گا۔ ن لیگ بڑی جماعت تھی تو انہیں بڑا پن ثابت کرنا چاہیے تھا۔ ان سے زیادہ دانائی تو ننھے بلاول نے دکھائی ہے۔ ن لیگ نے اپنا آغاز ہی انجام کی طرح کیا ہے۔ اب تھوڑی سی ہوا تو دیکھ لیتے اور اس کے رخ کوبھی۔ یہ منفی آغاز کچھ اچھا نہیں لگا۔ میڈیا بہت فعال ہے اور لوگ تبدیلی کے منتظر ہیں جبکہ آپ پانی میں مدہانی ڈال بیٹھے ہیں۔ دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتے ن لیگ کو شرم بھی نہیں آتی۔ آپ نے تو انتخابی رزلٹ آنے سے پہلے اپنی جیت کا اعلان کردیا تھا۔ مجھے یاد ہے ان کے بعد کے جشن میں میں نے کہا تھا: ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن، منانے کی ضرورت کیا تھی ن لیگ نے بھی کسی شریف آدمی کو آگے نہیں آنے دیا۔ اب خود جاوید ہاشمی اظہار کر رہے ہیں کہ کسی نے ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیا، کان نہیں دھرے۔ اس کے لوگ یہی سجھتے رہے کہ جاوید ہاشمی لیڈر نہ بن جائے۔ خیر جاوید ہاشمی لیڈر تو تھے ہی۔ ان کی کوشش تھی کہ لوگ اس کے پیچھے نہ لگ جائیں۔ ساڑھے تین سال کی قید کے بعد بھی جب ن لیگ کے لوگ انہیں جیل لینے گئے تو ہدایات یہ تھیں، جلوس نہ نکلے کہ کہیں وہ لیڈر نہ بن جائے۔ بہرحال پی ٹی آئی کی حیثیت سے شاہ صاحب کی محرومیاں اور چمک اٹھی ہیں۔ انہیں دکھ ہے کہ ن لیگ والے بھی انہیں پورس کا ہاتھی سمجھتے رہے۔ اور تو اور پنجاب اسمبلی میں اقلیتی نمائندہ طارق گل زنجیریں پہن کر آ گیا۔ سپیکر نے بہرحال ناراضگی کا اظہار کیا۔ ن لیگ کا احتجاج اپنی جگہ بامعنی ہوگا مگر پی پی اور ایم ایم اے کی خاموشی بھی بے معنی نہیں۔ دیکھا جائے تو ق لیگ کی لاٹری ضرور نکل آئی ہے۔ پرویزالٰہی کا رویہ زیادہ مثبت نظر آتا ہے۔ دوسری طرف وہ طبعی طور پر بھی مضبوط ہیں تبھی تو عمران خان نے انہیں ن لیگ کے خلاف آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ غور کیا جائے تو ن لیگ اس وقت تنہائی کا شکار ہو گئی ہے۔ پی پی کو وزارت عظمیٰ کے لیے شہبازشریف کا امیدوار ہونا بھی نہیں اچھا لگا۔ مگر ن لیگ نے ان کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔ زرداری تو اینٹ سے اینٹ بجائے آخر ایک اساسی اینٹ ثابت ہورہے ہیں۔ ساری باتیں ایک طرف رکھتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت آخری موقع ہے کہ ہم کام کرنے کی سوچیں۔ حل اے ایہو مسئلے دا مسئلے نوں ہن حل کریے ہم نے انتقامی سیاست کا نتیجہ دیکھ لیا ہے جو ہو چکا سو ہو چکا۔ نوازشریف نے گیارہ سال تک سیف الرحمن کے ذریعے زرداری کو رگڑا لگایا مگر ایک دھیلہ بھی اس سے برآمد نہ ہوا۔ چودھری افتخار نے تین سال ایک خط لکھوانے میں ضائع کردیئے۔ ڈاکٹر عاصم پر 1500 ارب روپے کا کرپشن الزام تھا، پھر کیا بنا رات گئی بات گئی۔ اسے پکڑنے پکڑانے میں کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ کم از کم اب جو کمایا جائے وہ قوم پر لگایا جائے۔ غالباً عمران خان کے سامنے یہی حقیقت ہے جو وہ دیکھ رہے ہیں۔ جب خود عمران خان سادگی اپنائے گا تو دوسرے کیوں کر فضول خرچی کرسکیں گے۔ ہمارے رانا ثناء اللہ نے بھی آنکھیں کھولی ہیں اور آنکھیں کھولتے ہی فرما رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت ڈانواں ڈول ہوتی رہے گی۔ ان کی کیفیت کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ آپ ان کی خواہشات دیکھیں اور ان کی خواہشات پران کا دم ہی نکل رہا ہے۔ جو بھی ہے عمران خان تو صرف ڈلیور کرتا ہے۔ محسوس ہورہا ہے کہ پی پی آگے چل کر دوسری بڑی پارٹی ثابت ہو گی اور ن لیگ اپنے منفی رویے سے تیسرے درجے پر چلی جائے گی مگر اول درجے پر رہنے کے لیے پی ٹی آئی کو بہت ہمت سے کام کرنا پڑے گا، ایک جنون اور سپرٹ کیساتھ۔ انہیں پورے یقین کے ساتھ آگے بڑھنا ہے وگرنہ غلطی کا لڈو کا سانپ ثابت ہوگی۔ بے یقینی میں کبھی سعد سفر مت کرنا یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے جناب عمران خان، وکٹری سٹینڈ پر سٹینڈ کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ پوری قوم آپ کے لیے دعا گو ہے کہ آپ ان کی توقعات پر پورے اتریں۔