میرا بیٹا دانیال چھٹی جماعت کا طالب علم ہے ۔ اسمبلی پریزینٹیشن کے لیے اسے سورہ ھمزہ اور سورہ التکاثر کا ترجمہ یاد کرنا تھا۔دانیال کو یہ ترجمہ یاد کراتے ہوئے خیال اپنے اہل اقتدار و اختیار کی طرف چلا گیا۔اربوں کھربوں کی جائیدادیں،دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اثاثے،کارخانے بنگلے, مہنگی گاڑیاں ،نوادرات اور جواہرات کا ڈھیر، عہدے اختیار،اقتدار مگر ہوس ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ عمر بڑھتی ہے تو ہوس کا شعلہ اور بھڑکنے لگتا ہے۔ یوں تو ہو س کے یہ چھوٹے بڑے بت خانے ہم سب کے دلوں میں آباد ہیں اور بساط بھر ہم سب اس کے اسیر ہیں مگر یہ کہ ایک فرد کی ہوس سے چند لوگ متاثر ہوتے ہوں گے ، رہمناوں اور حکمرانوں کی ہر نوع کی ہوس سے نسلیں اور قومیں تباہ ہوتی ہیں۔ سورہ التکاثر میں صاف اور سیدھے انداز میں مال اور دنیا کی عیش وعشرت حاصل کرنے کی ہوس کو انسان کی غفلت قرار دیا گیا۔اللہ تعالی نے ہم انسانوں کو تنبیہہ کی ہے کہ تم مال اور دنیا کا عیش حاصل کرنے کی ہوس میں غرق ہو یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔پھر آخری آیات میں ہے کہ تم دوزخ دیکھ کر رہو گے، پھر تم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا کہ تم نے کیسے ان کا حق ادا کیا۔ سورہ ھمزہ کی آخری آیات کا مفہوم ہے : جو مال جمع کرتا ہے اور اسے گن گن کر رکھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اسے زندہ رکھے گا تو یہ ہر گز نہیں ہونے والا۔ بلکہ اسے ضرور حطمہ(چکنا چور کردینے والی دوزخ ) میں پھینکا جائے گا۔ جو اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔ سورہ ھمزہ ، سورہ ا لتکاثر اور سورہ والعصر کے ترجمے ہم سب کو زبانی یاد ہونے چاہیں اور انہیں ہر سطح کے تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے بلکہ اسے تو زندگی کا نصاب بنا دینا چاہیے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے ہالزمیں، وزیروں مشیروں کے دفتروں میں ان سورہ ہائے مبارکہ کے تراجم فریم کرکے لگا دینے چاہئیں تاکہ صبح شام ،اٹھتے بیٹھتے ، فائلوں پر دستخط کرتے ،دوسروں کا حق مارتے ہوئے اپنے مفاد کے لیے جوڑ توڑ کرتے مزید کی ہوس میں مبتلا یہ شاید کسی لمحے قرآن کی اس تنبیہ پر نگاہ پڑنے سے بدل جائیں۔ شاید ان کو احساس ہو کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ بالآخر ختم ہونے والا ہے۔ایک طرف مال جمع کرنے، عہدوں ،اختیار اور طاقت کی ہوس میں مبتلا لوگ ہیں اور ایک طرف غریب غربا عوام ،سفید پوش،متوسط طبقے کے لوگ جن کی جیب میں زندگی کی بنیادی ضروریات پوریکرنے کو مناسب پیسے نہیں ، ظلم اور ناانصافی کا نظام اور کسے کہتے ہیں۔ اسلام میں مال جمع کرنے سے منع کیا گیاہے اور اسے تقسیم کرنے پر زور دیا کہ جو نعمتیں اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہیں اس میں رشتہ داروں ، ضرورت مند افراد کا حصہ ہوتا ہے زکوۃ خیرات اور صدقہ کا ایک پورا سلسلہ اسلامی معاشی نظام کا حصہ ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ اپنے مال سے دیتے ہوئے تو بظاہر کمی ہورہی ہے لیکن درحقیقت اس نعمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے کہ جو خود کیے بغیر آپ برکت کی اس فلاسفی کو نہیں سمجھ سکتے زندگی بے ثبات ہے اور یہ موت کی جانب ایک سفر ہے۔جاہ و جلال اقتدار و اختیار سب کو زوال ہے۔ دس سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے جنرل پرویز مشرف دبئی کے ہسپتال میں بے بسی اور ایسی پراسرار بیماری میں مبتلا رہے کہ اپنے جسم کی سب سے چھوٹی انگلی کو بھی جنبش دینے پر قادر نہ تھے۔ کبھی ان کے لہجے کی رعونت اور ان کے الفاظ کا چناؤ ان کے احکامات سے ان کے لامحدود اختیار کا پتہ ملتا تھا۔ اسی خمار میں بہت سے فیصلے ان سے غلط ہوئے جن کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔اپنے دس سالہ دور میں بہت سارے اچھے کام بھی کیے۔ بہرحال ہر عروج کو زوال ہے۔ ایک پرویز مشرف کیا تاریخ بھری ہوئی ہے۔بڑے بڑے طرم خان حکمرانوں بادشاہوں شہنشاہوں کی شہنشاہیت اور پھر زوال آثار لمحوں میں بے بسی اور لاچارگی کی موت سے۔۔ہر چیز کو فنا ہے اور ہر چیز اللہ کی طرف واپس لوٹ جانے والی ہے۔اصل آزمائش ہم لوگوں کی ہے ۔ دیکھنے والی آنکھ عبرت پکڑے اور اپنا قبلہ درست کرے ۔ ترکیہ اور شام میں آنے والے المناک زلزلے کے مناظر کیا زندگی کی بے ثباتی کا مظہر نہیں۔؟ سنگ و خشت کی مضبوط عمارتیں ایک ہی جھٹکے میں جس طرح زمین بوس ہوئیں یہ منظر دل دہلا دینے والا ہے۔ ہم بے بس ہیں اور دل دکھ سے بھر ے ہیں۔بس دعا گو ہیں کہ اس کڑے وقت میں زلزلے کے متاثرین کو آسانی نصیب ہو۔ میں سوچ رہی تھی کہ ہمارے آس پاس مادیت کی ایسی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ ہر شخص مال اور دنیا کی عیش وعشرت جمع کرنے کی ہوس میں مبتلا ہے۔ بہت سارے لوگ زندگی کو ننانوے کے چکر میں گزار دیتے ہیں کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اس نعمت کا شکر گزار نہیں ہوتے۔ گیارہ سال کا بچہ اس وقت سورہ التکاثر کا ترجمہ اونچی آواز میں یاد کررہا ہے اور مجھے Fulghum Robert کی کتاب یاد آتی ہے جس کا نام تھا all i really need to know i learned in kindergarten کتاب کا مصنف کہتا ہے کہ بڑوں کو جو کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے وہ بچپن کی ابتدائی کلاسوں میں سکھایا جاتا ہے۔جیسے دوسروں کا خیال رکھنا, بانٹ کر کھانا ,دوسروں کو باری دینا .مگر دنیا میں موجود یہ افراتفری اور نفسا نفسی بتاتی ہے کہ کنڈر گارٹن میں سیکھنے والے انسانیت کے یہ سبق بڑے بھول چکے ہیں لہٰذا انہیں دوبارہ سے یہ سبق پڑھانے چاہئیں اور اس کے لیے بے شک انہیں سکول میں داخل کرنا چاہیے۔ ہماری خواہش یہ ہے کہ ہر نوع کے پاکستانی اہل اختیار و اہل اقتدار کو پھر سے سکولوں میں داخل کر کے سورہ ھمزہ اور سورہ التکاثرکے ترجمے پڑھائے جائیں۔۔