وزیر اعظم نے آزاد کشمیر میں خطاب فرمایا کہ بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ سننے والے سوچ میں ہیں کہ بھارت نے تو کشمیر ضم کر کے اینٹوں کی پوری دیوار ہم پر پھینک ماری۔ اس کا جواب کہاں ہے؟ دراصل بات شاید ایک اینٹ کی ہے۔ بھارت نے ایک اینٹ ماری تو پتھر ماریں گے۔ اینٹوں کی دیوار کا معاملہ اس اصولی جواب میں الگ ہے۔ یا شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھارت نے جو اقدام کیا‘ وزیر اعظم اسے ’’اینٹ‘‘ سمجھتے ہی نہیں۔ ایسا ہے تو یہ عالی جناب وزیر اعظم کی عالی ظرفی ہے۔ عالی جناب کے اس خطاب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے فرمایا ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر سن کر نریندر مودی کی نیند حرام ہو گئی۔ یہ عالی جنابہ وزیر صاحبہ کی عالی ظرفی ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ بھارت اپنے پلان کے تحت ایسی مار دھاڑ شروع کرنے والا ہے کہ کشمیری شہریوں کی ایک اقدار کھدیڑ کر کنٹرول لائن(اب سرحد؟)کے اس پار پاکستانی علاقے میں دھکیل دے اور یوں جزوی طور پر اپنے درد سر میں کچھ کمی کر لے۔ خدانخواستہ ایسا ہوا تو ہم کیا کریں گے؟ کیا اسے ’’اینٹ‘‘ قرار دیںگے یا حسب معمول ایک بار پھر اپنی عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئندہ کے لئے اس اصولی موقف کا ایک بار پھر اعادہ کریں گے کہ مودی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر مزا چکھا دیں گے؟ خیر‘ اچھی بات ہے کہ دنیا ہماری عالی ظرفی کی قائل ہو گئی ہے۔ مان گئے استاد! ٭٭٭٭٭ یوم آزادی پر پی ٹی آئی کی سب سے بڑی تقریب ڈی چوک اسلام آباد میں ہوئی۔ جس میں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایمان افروز اور ولولہ انگیز خطاب فرمایا۔ حاضرین جلسہ میں ہزاروں افراد شامل تھے۔ وزیرخارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے اس سحر انگیزی سے خطاب کیا کہ ہرطرف سحر طاری کر دیا۔ اللہ کرے زور خطاب اور زیادہ۔ حکمران جماعت جس پیج پر ہے‘ اس پر ہجوم عاشقاں ہے۔ سب ایک پیج پر ہیں۔ ٭٭٭٭٭ پاکستان کا خط سلامتی کونسل کو مل گیا ہے جس میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کو کہا گیا ہے۔ وزیرخارجہ جناب شاہ محمود قریشی فرما چکے ہیں کہ سلامتی کونسل میں مسئلہ اٹھا تو ویٹو سامنے کھڑا ہے۔ سنا ہے دو ملک ویٹو کر سکتے ہیں۔ کل پانچ مستقل ارکان میں سے باقی تین ہیں۔ دو غیر جانبدار رہیں گے ایک کچھ بھی کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ حمایت بھی۔ ویٹو سامنے کھڑا ہے تو پھر ہم مسئلہ کیوں وہاں لے گئے؟ کیا ویٹو کروانے کے لئے؟ تاکہ یہ باب بھی بند ہو؟ یوں مسئلے کے پائیدار حل پر پکی مہر لگ جائے۔ وزیر اعظم نے ایک اور فورم پر جانے کی بات کی ہے۔ فرمایا کہ مسئلہ کشمیر عالمی عدالت انصاف لے کر جائیں گے۔ لیکن وہ تو ایسے مسئلوں کا فورم ہی نہیں جناب؟ چلیے ‘ مسئلہ آئی ایم ایف میں لے جانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ٭٭٭٭٭ شیخ رشید نے کہا ہے‘ عالمی برادری مسئلہ کشمیر حل کرے۔ سال بھر پہلے شیخ جی نے کچھ اور پیش گوئی کی تھی۔ فرمایا تھا۔ سو فیصد یقین سے کہتا ہوں مسئلہ کشمیر ’’میرا خان‘‘ ہی حل کرے گا۔ اب کیا ہوا کہ بات عالمی برادری پر ڈال دی۔ دس بارہ سال پہلے بھی شیخ جی نے ایک پیش گوئی انہی الفاظ میں کی تھی۔ کہا تھا سو فیصد یقین سے کہتا ہوں۔ مسئلہ کشمیر میرا سید حل کرے گا۔ شیخ جی کی پیش گوئی سچ کرنے کے لئے ’’میراسید‘‘ (پرویز مشرف) آگرے جا پہنچا اور واجپائی کے گھٹنوں کی طرف لپکا واجپائی ناہنجار نے گھٹنے سکیڑ لئے اور یوں شیخ جی کی پیشگوئی پوری ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ٭٭٭٭٭ کراچی کے حالات برے سے برے ہیں۔ بارشوں میں ایسا ڈبویا کہ کوئی اور شہر کہاں ایسا ڈوبا ہو گا۔ اب بھی شہر غرقاب پڑا ہے۔ بجلی گھروںمیں نہیں ہے۔ کھمبوں میں ہے۔ تین افراد ان کھمبوں سے لگ کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک عالمی ریکارڈ۔ بلدیہ کراچی کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’’کے الیکٹرک نے کراچی کے شہریوں سے وہ کیا جو دشمن بھی نہ کر سکتا۔ بلدیہ کا کہنا سچ ہے مگر آدھا یہ پورا سچ کراچی کے شہریوںسے پوچھیے۔ وہ کہتے ہیں بلدیہ اور کے الیکٹرک نے مل کر کراچی والوں سے جو کیا وہ دشمن بھی نہ کر سکتا تھا۔ بلدیہ اور کے الیکٹرک پر ایک ہی سیاسی گروہ کا قبضہ ہے۔ میئر صاحب بھی مشرف کے پسماندگان میں سے ہیں اور نئے چیئرمین صاحب بھی۔ یہ ریٹائرڈ بزرگوں میں شامل ہیں اور جب جنوری میں ان کی تعیناتی ہوئی تو کسی دل جلے نے تبصرہ کیا‘ اب کے الیکٹرک کا یہ وہی حال کریں گے جو سابقہ حکومتوںنے خزانے کا کیا ہے۔ یہ توقع بڑھ چڑھ کر پوری ہوئی۔ ایک خیال تھا‘ کے الیکٹرک کا کوڑا شہریوں پر جی بھر کر برسے گا۔ اس سے بھی بڑھ کر برسا۔ آٹھ دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تو تنی تھی‘ کراچی میں نئی ریت یہ پڑی کہ کئی کئی دن کے لئے بجلی جانے لگی۔ چیئرمین صاحب پر مشرف دور میں خوب ھن برسا‘ تین قتل پر کچھ مقدمے بھی درج ہو گئے ہیں لیکن چیئرمین صاحب پر اوپر والوں کا اکرام ہے۔ تین ہزارکھمبوں سے لگ کر مر جائیں‘ تب بھی کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔