صاحب عجب ہی ماجرا ہوا۔ جو کبھی نہ ہوا تھا اب کے ہو گیا۔ عوام یا ووٹر جاگ پڑے۔ یوں لگا کہ سوئی ہوئی غفلت کی نیند میں پڑی قوم کو کسی نے قُم باذن اللہ کہہ کر جگا دیا۔ امیدوار وعدوں کی پوٹلی لیے جس حلقے میں جاتا ہے وہاں لوگ باگ پکڑ لیتے ہیں۔ پوچھتے ہیں اب تک کہاں تھے؟ ووٹ لے کر پھر گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تو نہ ہو جائو گے؟ وعدہ فراموش‘ یہاں سے چلتے پھرتے نظر آئو۔ بے چارہ امیدوار اس نئی صورت حال میں گِھر کر کہے تو کیا کہے یہی نا کہ میری توبہ‘ اب نہ ہو گا۔ جو کہوں گا پورا کروں گا۔ مگر عوام اب ان جھانسوں میں آنے والے نہیں۔ بھٹو کے نواسے بلاول کو اہلیان لیاری نے نہ بخشا‘ اینٹ پتھر مار کر گاڑی کے شیشے توڑ دیے الٹے پائوں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہ وہی لیاری ہے جہاں ’’جئے بھٹو‘‘ کے علاوہ کوئی نعرہ گونجتا ہی نہ تھا۔ یہیں کے ایک جلسے میں ایک ننگ دھڑنگ بچے کو بھٹو صاحب اسٹیج پر لے آئے تھے اور پوچھا تھا نہایت درد مندی سے کہ اس کے جسم پر کپڑے کیوں نہیں ہیں، یہ سکول کیوں نہیں جاتا اور اس کے ساتھ ہی لیاری والوں نے اپنے آپ کو بھٹو کی آغوش میں دے دیا تھا۔ جیسے بھٹو کوئی فرشتہ رحمت یا نجات دہندہ بن کر آیا ہو۔ بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد اس ننگ دھڑنگ بچے کو فراموش کر دیا آج وہی ننگا بھوکا بچہ بلاول کے سامنے آ کھڑا ہوا اور نعرے اور پتھر مار کر اسے لیاری جو پیپلز پارٹی کا گھر تھا اندر داخلے سے روک دیا۔ اور ایسا ہی واقعہ ہوا تحریک انصاف کے عارف علوی جو ڈیفنس سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر ڈیفنس کے مسائل کو بھول گئے۔ یہ سمجھ بیٹھے کہ ٹاک شوز میں اپنے تجزیے اور خاندانِ نواز شریف کو مطعون کرنا ہی عوام کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ انہیں بھی ووٹروں نے پکڑ لیا اور وہی سوال کہ اب تک کہاں تھے؟ سب امیدواروں کے ساتھ نہیں تو اکثر امیدواروں کے ساتھ یہی ہو رہا ہے اور وہ جو سازش تھیوری ہے کہ یہ ہمارے مخالفین کی سازش ہے‘ یہ ان کے بھیجے ہوئے بدمعاش تھے جنہوں نے ہمارے ساتھ ایسا بدتر معاملہ کیا۔ امیدواروں کو اب اچھی طرح اندازہ ہو جانا چاہیے کہ یہ نہ ستر کی دہائی کے عوام ہیں اور نہ اسی کی دہائی کے ووٹر ہیں۔ یہ وہی عوام ہیں جو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اب اپنے سیاستدانوں کو کھلی چھوٹ دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اب جو کام کرے گا اپنے وعدے پورے کرے گا عوام ان ہی کو ووٹ دیں گے۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں عوام میں یہ شعور یہ بیداری عمران خان کی وجہ سے آئی ہے۔ شاید ایسا ہی ہو۔ لیکن نہیں بھولنا چاہیے پی ٹی آئی میں بھی یہ شعور صرف ان کی پارٹی کے مخالفین کے لیے نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی کے لیے بھی آیا ہے۔ بنی گالہ میں پارٹی کے کارکنوں نے جو دھرنا دیا اور ٹکٹوں کی تقسیم میں جو مفاد پرستوں کو آنکھوں پہ بٹھایا، مخلص اور جانثار کارکنوں کو نظروں سے گرایا اور نظر انداز کیا گیا‘ یہ دھرنا اور احتجاج اس مفاد پرستانہ رویے کے خلاف تھا۔ کارکنوں نے شاہ محمود قریشی کی بھی گاڑی کو آگے بڑھنے نہ دیا اور شاہ صاحب جیسے ملتان کے گدی نشین کو بھی گاڑی سے اترنے پر مجبور کر دیا۔ ہاں جمہوریت کے حوالے سے عوام میں اسی بیداری کا انتظار تھا۔ تبدیلی اب نہیں آئی تو پھر کبھی نہیں آئے گی۔ پچیس جولائی کا الیکشن بتا دے گا کہ نیا پاکستان بنے گا یا ملک اور عوام ان ہی روایتی مکر پسند سیاست دانوں کے چنگل میں پھنسے رہیں گے۔ ہم پہلے بھی اپنے کالموں میں اس تبدیلی کے حوالے سے لکھتے آئے ہیں کہ اس ملک میں کوئی خونی انقلاب نہیں آئے گا۔ کیوں کہ انقلاب ایک ظالم کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرے ظالم کو بٹھا دیتا ہے۔ حقیقی تبدیلی ارتقا اور بتدریج عمل کے ذریعے آتی ہے اور ملک میں تعمیر و تخریب کا عمل ساتھ ساتھ ہو رہا ہے جہاں بگاڑ ہے وہاں بنائو بھی ہے۔ ہم چونکہ طبیعتاً قنوطی اور مایوس قوم بن چکے ہیں اس لیے ہمیں تخریب کے عقب میں تعمیر کا آہستہ رو عمل دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ تبدیلی اور تعمیر کا دائرہ اپنا چکر ضرور مکمل کرے گا۔ روایتی سیاستدان روایتی مافیا اور قبضہ گروپ اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس تبدیلی کے عمل کو بھانپ کر ہی اب آصف زرداری کو سانپ سونگھ گیا ہے اور وہ اپنے سیاسی پارٹنر نواز شریف کے خلاف زہر افشانی سے گریزاں ہیں۔ انہیں بھی خوب معلوم ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے بعد توپوں کے دہانے کا رخ ان کی طرف ہو گا اور وہ بھی اسی طرح رگیدے جائیں گے جو حال نواز شریف کا ہو رہا ہے۔ وہی جال اب موصوف کو جکڑے گا یہ ہونا ہے اور ایسا ہو کر رہے گا۔ چاہے ملک کے کرپٹ نظام میں انہیں بچائو کی کوئی کرن آخری امید کی طرح نظر آ رہی ہو۔ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں سے جو ڈان دیکھتے ہی دیکھتے کیسا بے اثر اور گوشہ گمنامی میں دھکیل دیا گیا۔ ویسا یا شاید اس سے بھی برا سلوک ان کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ ہو جنہوں نے اپنی جائیدادیں بنانے اور اپنے بینک بیلنس میں لوٹی ہوئی دولت بھرنے کے سوا کچھ نہ کیا ہو۔ تو تخریب کا یہ دائرہ مکمل ہونے کو ہے پھر تعمیر ہی تخریب پر غالب آئے گی۔یہ قل اعوذی بیان ممکن ہے ان لوگوں کو قابل یقین محسوس نہ ہو لیکن اس پہلو پر سوچنا کہ عوام میں اچانک یہ بیداری‘ یہ شعور کہاں سے اور کیسے آ گیا۔ جب کسی قوم میں تبدیلی کا عمل مقدر کر دیا گیا ہو تو ساری منصوبہ بندی طاق پہ دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ تب نامور لوگ بھی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے قابو میں کیے جاتے ہیں اور ان سے اس طرح کام لیا جاتا ہے جیسے وہ چابی سے چلنے والا کھلونا ہوں۔ بااختیار انسان نہ ہوں۔ ہمارا ملک دیگر مسلم ملکوں کی طرح نہیں۔ یہ قدرت کے ایک خاص منصوبے سے وجود میں آیا ہے۔ یہ منظم منصوبہ بتدریج عمل میں آیا جس کا یقین تو خود قائد کو بھی نہ تھا۔ انہیں یہ بھی احساس تھا کہ جیب میں کھوٹے سکے پڑے ہیں، لہٰذا زیادہ سے زیادہ دعائیں قوم کے لیے مل جائیں تو یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اسی لیے انہوں نے 23مارچ کی قرار داد کی منظوری کے بعد بھی کابینہ مشن پلان کو قبول کر لیا تھا کیونکہ اس پلان میں مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جاتی اور وہ اپنے نصب العین کے مطابق ان علاقوں میں اپنی تہذیب و معاشرت کے ساتھ زندگی گزارنے میں آزاد تھے۔ کوئی کیوں نہیں سوچتا کہ جواہر لعل نہرو کو کس نے مجبور کیا کہ وہ ایسا بیان دے جس کے بعد قائد کابینہ مشن پلان کو مسترد کر دیں اور نتیجے میں پاکستان وجود میں آ جائے۔ تو جو ملک قدرت کے ارادے سے معرض وجود میں آئے بدترین حالات کے باوجود کیونکہ اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اسی یقین کی بنیاد پر قائد نے نہایت پرعزم طریقے سے فرمایا تھا کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بناہے اور انشاء اللہ یہ قائم رہے گا۔ پاکستان قائم رہ کر اپنی تقدیر خود سنوارے گا اور وہ پارٹیاں اور وہ سیاستدان جو گدھ کی طرح اسے نوچ کھسوٹ کر برباد کرنے کی آخری حد تک کوشش کرتے رہے ہیں انہیں منہ کی کھانی ہو گی اور یہ ملک شاہراہ ترقی و خوشحالی کی منزل کو ضرور پائے گا اس بات کا ہمیں ایسا ہی یقین ہے جیسے اس حقیقت کا کہ کل صبح ضرور طلوع ہو گی۔