ونیزویلا، جس کے متعلق گزشتہ کالم محدود لفظی کوٹے کے باعث تشنہ رہ گیا تھا، اس وقت مکمل طور پہ عالمی سامراج، امریکہ اور روس کی سرد جنگ کا اکھاڑا بنا ہوا ہے جو کسی بھی وقت کھلی جنگ میں بدل سکتا ہے۔صدر مادورو جو اپنی ضد پہ اڑے ہوئے ہیں ، اپوزیشن لیڈر جوان ڈائگو اور پوری اپوزیشن کو امریکی گماشتہ قرار دے چکے ہیں جو ان کا تختہ الٹنے کر امریکی سامراجی عزائم پورے کرنے پہ تلے ہوئے ہیں جو کسی حد تک درست بھی ہے۔اگست 2018 میں صدر ٹرمپ نے چار لاطینی ممالک کے صدور سے ملاقات میں کھلے بندوں ونیزویلا پہ چڑھائی کا عندیہ دیا جسے چاروں نے مسترد کردیا۔ اس کے بعد ونیزویلا کی فوج میں بغاوت کے بیج بوئے گئے جسے صدر مادورو نے غیر معمولی مراعات دے کر قابو میں کیا ہوا تھا۔عین ان حالات میں جب ونیزویلا کے عوام فاقوں پہ مجبور تھے صدر مادورو وزنیزویلا کی فوج کو نوازتے رہے اور انہیں ملکی معیشت میں خطرناک حد تک حصہ دار بنا رہے تھے۔ہیوگوشاویز کے انتقال کے بعد ایگرو پیٹریا کو مکمل طور پہ ملک کی فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا اور ایگرو فینب بنا ڈالی جس نے نہ صرف ادارے میں بدعنوانی کے نئے ریکارڈ بنائے بلکہ ہیوگو شاویز کے دور میں کسانوں کو عطیہ کی جانے والی زمینوں کو کھاد اور دیگر زرعی اشیائے ضرورت فراہم کرنے سے نہ صرف پہلو تہی کی بلکہ وقتا فوقتا ان اشتراکی کمیون پہ حملے بھی کرتے رہے۔ نتیجتاً تنگ آئے کسانوں نے جوابی کاروائیاں شروع کردیں اور اس کی کچھ حدود پہ قبضہ کرلیا۔اس طرح اشتراکی انقلاب کے بچے آپس میں دست و گریبان رہے۔اشتراکی معیشت میں مزدوروں اور کسانوں کی بالادستی نے سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کردیا اور وہ سرمایہ کاری سے کترانے لگے تھے ۔دوسری طرف اس انقلا ب نے اشرافیہ کا بال بھی بیکا نہ کیا تھا اور وہ دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹنے میں مصروف رہی ۔یہی حال ملک کی سب سے بڑی برآمدی صنعت تیل کا ہوا۔تیل کی پیداواری ریاستی کمپنی PDVSA کے ریوینو پہ قبضہ کرنے کے فوج نے اپنی کمپنی CAMIMPEG بنائی جس نے تیل کی کشید سے لے کر فروخت تک کاکام شروع کردیا۔اس میدان میں تو فوج نے کرپشن کے وہ جھنڈے گاڑے کہ CAMIMPEG کو اکیسیویں صدی کا سب سے بڑا کرپشن اسکینڈل کہا جانے لگا۔جس ونیزویلا میں عوام بھوکے مررہے تھے وہیں PDVSA کا سالانہ ریوینیو اڑتالیس بلین ڈالر تھا۔ صدر مادورو کی ان عنایتوں کے باوجود فوج کے ایک حصے نے ان کے خلاف سازشیں جاری رکھیں اور قاتلانہ حملے سے لے کر مئی کے انتخابات روکنے تک کی کوشش کی ۔اسی وینزویلامیںجہاں فوج عوام کی دگرگوں معاشی حالت کے باوجود انتہائی خودغرضانہ طرز عمل کا مظاہرہ کررہی تھی ، سینٹرل بینک میں سونے کے 164ٹن موجود تھے اور کرنسی کی قیمت گرتی جارہی تھی۔یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ ایک نئی کرنسی جاری کی جائے جس کے پیچھے سونے کی یہی مقدار موجود ہو لیکن عالمی مارکیٹ میںسونے کی قیمت کا موازنہ ڈالر سے کیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی حکومت کو مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لئے نوٹ چھاپنے پڑیں گے جو اگر اسی قیمت کے ہوئے تو بات وہی ہوجائے گی جو اب ہے چنانچہ اس سونے کی فروخت کا فیصلہ کیا گیااور اس سال امارات کو پندرہ ٹن سونا فروخت کرنا شروع کیا گیا جبکہ نو سو ملین ڈالر کی مالیت کا سونا ترکی کو پہلے ہی فروخت کیا جاچکا ہے ۔یہ فروخت بغیر مناسب معاشی اصلاحات کے پہلے ہی جاری تھی کیونکہ مرکزی بینک میں سونے کے ذخائر محض تین سال میں 272 ٹن سے گھٹ کر نصف رہ گئے تھے۔۔ بینک آف انگلینڈ میں وینزویلا کے ڈیڑھ بلین یورو کی مالیت کا سونا پڑا تھا جس کی حوالگی کے لئے ونیزویلا تقاضہ کررہا تھا۔ اب چونکہ یورپی یونین نے بھی خود مامورشدہ جوان گائڈو کو اصولی صدر تسلیم کرلیا ہے تو انہیں صدر مادورو کی جگہ اس سونے تک رسائی دی جائے گی۔اشتراکی بھائی چین نے بھی ہری جھنڈی دکھا دی ہے اور PDVSA پہ امریکی پابندیوں کے بعد اسے پیٹرو چائنا کی شراکت سے محروم کردیا ہے۔ماضی کے اشتراکی گرو اور حال کے سرمایہ دار روس نے بھی قرض واپسی کا سنگدلانہ مطالبہ شروع کردیا ہے جس کی ادائیگی اسی سونے کی فروخت سے کی جائے گی۔سیاسی صورتحال اس سے بھی خراب ہے اور ایران پہ پابندیوں کے بعد ونیزویلا ایران دوستی کا خمیازہ بھگتنے والا ہے جہاں حزب اللہ نے سونے کی کانیں خرید رکھی تھیں۔مشرق وسطی میں اندر تک گھسے ایران کی معاشی شہہ رگ دبانے کا اس سے اچھا موقع اور کونسا ہوگا۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایران کا حشر ونیزویلا جیسا ہونے جارہا ہے کیونکہ فوجی اشرافیہ نے بعینہ ایران میں وہی کرتوت کئے ہیں ۔اس نے جوہری معاہدے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقومات عوام پہ خرچ کرنے کی بجائے کہیں اور خرچ کی ہیں اور معاشی تفاوت ہی نہیں تنفر بھی بڑھتا جارہا ہے۔ آپ غور کریں اوپیک میں شامل تمام اہم ممالک ایک ایک کرکے ٹھکانے لگائے جارہے ہیں ۔لیبیا عراق ایران اور اب ونیزویلا۔سعودی عرب نے بالاخر اسی خطرے کے پیش نظر تیل کی انحصاری سے نکلنے کا بروقت فیصلہ کرلیا ہے۔ ونیزویلا پہ نئی پابندیاں اوپیک میں ایک بڑا خلا پیدا کریں گی جسے امریکہ ہی پورا کرے گا۔میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ امریکہ میں پرمیان کے تیل کے ذخائراتنے بڑے ہیں کہ2040 تک امریکہ دنیا کا پچھتر فیصد تیل پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن فی الحال یہ کمی کہیں نہ کہیں سے تو پوری ہوگی۔ونیزویلا پہ بڑھتا امریکی دباو، امریکی حمایت یافتہ اپوزیشن لیڈر جوان گائیڈو جسے کل تک کوئی بھی نہیں جانتا تھا اور جو آج یورپ اور امریکہ کی آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے، اشتراکی اشرافیہ کا اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے فوج کو نوازنا ، ادھورا اشتراکی انقلاب،اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش اور فوج کوامریکی دباو کے خلاف ہیرو بنا کر پیش کرنا اور اسے رشوت کے طور پہ معیشت میں کھلی چھوٹ دیناخطے میں دیگر سامراجی طاقتوں بالخصوص روس کو دعوت مبازرت دے رہا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ خود فوج صورتحال سے فائدہ اٹھا کر بغاوت کردے اور صدر مادورو کی چھٹی ہوجائے اور یہ بھی کہ شام اور افغانستان سے افواج نکال کر امریکہ زیادہ مناسب محاذ میں اپنی افواج جھونک دے جہاں تیل اور سونے کے لامحدود ذخائر موجود ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ روس اور امریکہ ملی بھگت کے ذریعے ونیزویلا کو آپس میں تقسیم کرلیں۔ایسا ہوا تو یہ تاریخ میں کوئی نئی مثال تو نہیں ہوگی۔آخر کوریا ، جرمنی اور خلافت عثمانیہ سمیت ساری دنیا اسی طرح تقسیم ہوئی تھی۔