قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے سپیکر ڈائس کا گھیرائو کیا‘ ہنگامہ آرائی ہوئی اور اراکین نے ہاتھا پائی کی۔ یہ خبر ملک میں سیاسی استحکام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے آرزو مندوں کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ تشویش کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس ہلڑ بازی میں کشمیریوں سے یکجہتی کی قرار داد منظور نہ ہو سکی۔ بظاہر گزشتہ برس اسی روز اپوزیشن کا قومی اسمبلی میں ہنگامہ کرنا کوئی حوالہ نہیں لیکن اسے محض اتفاق بہرحال نہیں سمجھا جا سکتا کہ پچھلے برس بھی اپوزیشن نے کشمیر پر حکومت کو قرار داد پیش کرنے اور بعدازاں اس قرار داد کی منظوری کے عمل میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان ایک مقدمے کی سماعت کے دوران حال ہی میں یہ ملاحظات جاری کر چکی ہے کہ ’’پاکستان کو منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے‘ خود کو نہ سدھارا تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘معزز عدالت عظمیٰ کے ان ملاحظات سے اختلاف ممکن نہیں۔ وطن عزیز میں سب سے بڑی خبر ہمیشہ سرکاری افسران اور سیاستدانوں کی کرپشن‘ غیر قانونی سرگرمیوں اور دانشمندی سے عاری سیاسی فیصلوں سے متعلق ہوتی ہے۔ جس تیزی سے اس نوع کی خبریں ذرائع ابلاغ کو متوجہ کرتی ہیں اسی طرح اچانک غائب ہو جاتی ہیں۔ لاتعداد درخواستیں اور رپورٹیں پولیس‘ ایف آئی آر اور نیب کے پاس پڑی رہتی ہیں‘ اینٹی کرپشن مجہول بنا رہتا ہے۔ طاقتور لوگوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو قابو میں کر رکھا ہے۔ اعلیٰ عدالتیں ناانصافی‘ عدم مساوات‘ جبر اور ظلم کے خلاف ملاحظات جاری کرتی ہیں اور ماتحت عدالتیں کئی بار ظالمانہ نظام کا حصہ بنی نظر آتی ہیں۔ کسی سرکاری محکمے سے واسطہ پڑے تو معلوم ہوتا ہے یہاں کے اہلکار سب کام کر سکتے ہیں سوائے اس کام کے جس کے لئے یہ ادارہ بنایا گیا۔ پوری قوم ایک تخریبی نفسیات کی شکار دکھائی دیتی ہے۔ مثبت اور تعمیری سوچ اور کام کا کوئی قدر دان ہے نہ آشنا۔ اس طرز فکر نے ہماری انفرادی اور قومی ترقی کی سمت منفی رخ پر ڈال دی ہے۔ چند روز قبل گلگت بلتستان کے ایک سرگرم نوجوان نے ذرائع ابلاغ کے روبرو انکشاف کیا تھا کہ اسے اور اس کے والد کو بھارت نے پاکستان کے خلاف نفرت انگیز فضا پیدا کرنے کا کام سونپا تھا۔ مہدی شاہ نے بتایا کہ این جی اوز کی آڑ میں بھارت گلگت بلتستان میں میں خفیہ نیٹ ورک چلا رہا ہے‘ بھارت بیرون ملک تعلیم یا روزگار کے لئے مقیم نوجوانوں کو ہدف بنا کر قابو میں کرتا ہے۔ اس صورت حال کو دوسرے زاویے سے دیکھنا ہو تو کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزی ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے۔ پاکستان میں جمہوری سیاسی نظام ہے‘ اس نظام میں کمی اور نقص ہو سکتا ہے جسے وقت کے ساتھ ساتھ درست کیا جاتا ہے مگر جمہوریت بنیادی طور پر آج بھی ابراہام لنکن کے اس مقولے کی بنیاد پر کھڑی ہے کہ عوام کی حکومت‘ عوام کے ذریعے اور عوام پر۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ منتخب نمائندے عوام کے دکھ درد اور مسائل سے واقف نہ ہوں۔ وہ جو سپریم کورٹ نے کہا کہ ملک کو منظم طیقے سے تباہ کیا جا رہا ہے تو یہ عمل دراصل تیز کرنے کا کام عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھوں سے انجام پا رہا ہے۔پاکستان میں جمہوریت کے پروان نہ چڑھنے کی سب سے بڑی وجہ سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات کا فقدان ہے۔ سیاسی جماعتیں نظریات‘ قومی ایجنڈے اور پالیسیوں کے بجائے مخصوص خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والے گروپ کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ پارٹی کے سربراہ دراصل پارٹی کے مالک ہوتے ہیں‘ کوئی کارکن یا رہنما ان کی رائے سے اختلاف کر کے ان کی جماعت میں نہیں رہ سکتا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی طویل عرصے تک باری باری اقتدار حاصل کرتی رہی ہیں۔2006ء میں دونوں جماعتوں کی قیادت نے جس معاہدے کو میثاق جمہوریت کا نام دیا وہ دراصل اقتدار کے دوران ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ دینے کے ضابطوں پر اتفاق تھا۔ اس میثاق جمہوریت کو ملک اور قوم کے مفاد میں بروئے کار نہیں لایا جاسکا، اپوزیشن جماعتیںسیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے جو کوششیں کر رہی ہیں وہ نہ ہوتیں۔ صوبائی اسمبلی‘ قومی اسمبلی اور سینٹ کے فورم ملکی مسائل پر بحت اور قابل عمل حل تلاش کرنے کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں گلیوں اور جلسہ گاہوں میں جو زبان استعمال کرتی ہیں پارلیمنٹ میں وہ قابل قبول نہیں ہوتی۔ یہاں سپیکر کی شکل میں کسٹوڈین ہوتا ہے جو نامناسب زبان اور رویے کو روکتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران اپوزیشن اور حزب اقتدار نے پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کے لئے کوئی لائق تحسین کام نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کو مقدس ایوان کہنے والے‘ اس کی بالادستی کی بات کرنے والے اور اسے جمہوری نظام کا مرکز تسلیم کرنے والے مسلسل اس ایوان کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ رویہ دن بدن بگڑتا جا رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ خاندانوں کے مفاد میں جو قانون اور ادارہ مزاحم ہو گا اس کو بے توقیر کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ اہل کشمیر مصیبتوں میں گھرے ہیں۔ انہیں ہماری مدد چاہیے‘ پارلیمنٹ جب اس اہم موقع پر ہنگامہ آرائی کا مرکز بن جائے تو بطور قوم ہمارا اتحاد و اتفاق مجروح ہوتا ہے‘ اراکین پارلیمنٹ کو جان لینا چاہیے کہ ان کے طرز عمل کو دشمن ہمارے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔