پھالیہ پہنچ کراحساس ہوا کہ سکندر اعظم یقینی طور پر اپنی بیگمات سے عاجز تھا جووہ گھوڑے کی پشت سے نیچے نہ اترتا اور چڑھائی پر چڑھائی کرتااڑتا چلا جاتا تھااسے اچھا جوڑ ملا ہوتا تو اسکے ہاتھ میں فیلیس کی لگاموں کی جگہ کسی بیگم کاحنائی ہاتھ ہوتالیکن اس ہاتھ کے لئے بھی اسے یہاں آنا تو پڑتابھلاگوری بی بیوں کو مہندی سے ہونے والی مینا کاری کی کیا خبر، اس صورت میں بھی اسے فیلیس کی ضرورت پڑنی تھی اسے شمشیر ،نیزے لہرانے کے بجائے سہراباندھ کر آنا پڑتا اور منظر کچھ یوں ہوتا کہ اسکے یار بیلی لڈیاں ڈال رہے ہوتے اور بہنیں ڈھول کی تھاپ پر ’’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘‘ گا رہی ہوتیں ویسے یوں ہوتا تو اسے بھی لگ پتہ جاتا کہ مشرقی سسرال کن فولادی چنوں کا نام ہے۔ پھالیہ منڈی بہاؤالدین کا چھوٹا سا تاریخی شہر ہے تاریخ داں اسکی نسبت سکندر اعظم کے محبوب گھوڑے بیوسے فیلیس سے جوڑتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جب نصف دنیا فتح کرنے کے بعدبھی اسے چین نہ آیاتو اسکی نظریں ہندوستان پر جم گئیں وہ یہاں اپنا جھنڈا گاڑنے آگیااسکا استقبال راجا پورس کے ہاتھیوں نے سونڈیں لہرا کر کیا ،جہلم میں گھمسان کا رن پڑاجس میں سکندر اعظم بھی شدید زخمی ہوا قریب تھا کہ زمین پر آگرتا اسکے باوفا گھوڑے بیوسے فیلیس نے دڑکی لگائی اور راجا جی کے سپاہیوں کا حصار توڑکر دور نکال لایا اس کوشش میں فیلیس شدید زخمی ہوا اور اپنی جان سے گیا،سکندر نے پورے احترام سے اسے دفنایا سوگ منایااور اسکے نام سے یہ شہر فیلیس بسایا جسے ماجد کو ماجا اور پرویز کو پیجی کہنے والے پنجابی بھائیوں بہنوں بزرگوں نے پھالیہ کردیا۔ میں پھالیہ کی اس تاریخی حیثیت سے کبھی واقف نہ ہوتا اگر معروف اور سند یافتہ آوارہ گرد عبیداللہ کیہر نے برادر حاطب صدیقی کے حکم پر مجھے پھالیہ پہنچنے کا حکم نہ دیا ہوتا،عبیداللہ کیہرمشہور سیاح اور سفرنامہ نگار ہیں صاحب اولاد ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب بلکہ صاحب کتب ہیں ،انکی کتابوں کی تعداد انکے بچوں سے زیادہ ہے سیا حت میں یہی ایک خامی ہے کہ بندے کا کنبہ چھوٹا رہ جاتا ہے ۔۔۔ برادر حاطب صدیقی صاحب طرز شاعر اور کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ صدر بھی ہیں ان کی صدارت پردائرہ علم و ادب کے تمام ارکان کا’’معلوم‘‘ اتفاق ہے اگر کسی کو اختلاف ہے تو ’’نامعلوم‘‘ اور یہ نامعلوم اختلاف کراچی کے نامعلوم بھائی لوگوں کی طرح بھاری نہیں اس لئے وہ مزے سے مرکزی صدارت کا لطف اٹھا اور حکم چلا رہے ہیں ،انکے حکم پر میں اپنے دوست مدثر یاسین اور اک اور آوارہ گرد، بلاگر عظمت اکبر کے ساتھ پھالیہ کو روآنہ ہوا،خیال تھا کہ اسلام آباد سے دو تین گھنٹے میں ہم پھالیہ شریف پہنچ کر سکندر کے گھوڑے کے مزار پر احتراماً کھڑے ہوں گے جماعت اسلامی کراچی کے برادر معراج الہدیٰ صدیقی نے توفیلیس کی قبرپر چادر چڑھانے کا مشورہ بھی دے دیا تھا جسے ہم نے یہ کہہ کر رد کردیا کے عورت مارچ والی بی بیاں زیادہ مستحق ہیں ہم اسلام آباد سے ساڑھے چار گھنٹے میں پھالیہ کے غزالی کالج قدرے تاخیر سے پہنچے جہاں آئے کراچی سے اسکردو تک کے لکھاری عشایئے سے انصاف کررہے تھے ،ہم بھی اس عمل میں شریک ہوگئے جسکے بعد کالج آڈیٹوریم میں مشاعرہ سننا اور کچھ شاعروں کو تو بھگتنا بھی پڑا ہم نے راہ فرار کی کوشش کی مگر کانفرنس کے میزبان ضیغم مغیرہ کی مسکراہٹ پاؤں کی زنجیر بن گئی مجبوری یہ بھی تھی کہ ہمیں شب بسری کے انتظام کا علم نہ تھا،مشاعرے کے بعد کالج ہاسٹل میں صاف ستھرا بستر تو میسر آگیا لیکن ٹھیک سے نیند نہ آسکی نیند کچی پکی ہی رہی ایک بارخدا خدا کرکے آنکھ لگی تھی کہ گھوڑے کی ہنہاہٹ سنائی دینے لگی ہم نے کہا ہو نہ ہو یہ بیوسے فیلیس کی ہنہاہٹ ہے ہم اس ہنہناہٹ کے بعد سکندر اعظم کی خوش آمدید کا انتظار کرنے لگے مگر کسی سکندر کی آوازآئی نہ اعظم کی مگر ہنہناہٹ سنائی دیتی رہی کچھ دیر بعد محسوس ہواکہ ہم جاگ رہے ہیں اور یہ آوازبیوسے فیلیس کی نہیں بلکہ کمرے میں سونے والے لکھاریوں میں سے کسی کے خراٹوں کی ہے،اس نسل کے خراٹے اب خال خال ہی سنائی دیتے ہیں۔ رات سوتے جاگتے میں گزری جس کے بعد پھالیہ جیم خانہ میں ہونے والی اہل قلم کانفرنس میں برادرشاہ نواز فاروقی کے خدا مرکز زندگی اور تعمیری ادب پردانشوروں اور بزرگ قلم کاروںکی توجیہات نے آنکھیں کھول دیں ،سچ یہی ہے کہ لکھاری کسی بھی سوسائٹی کا وہ طبقہ ہوتے ہیں جو رائے سازی اورسمت کا تعین کرتے ہیں انکا قلم بناتا بھی ہے اور بگاڑتا بھی،موجودہ فکری انارکی میں خدا مرکز زندگی کے خواہاںلکھاریوں کا کردار مزید بڑھ جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے تعمیری ادب کے یہ معمار یا تو کٹہرے میں خداگریز زندگی گزارنے والوں کی جرح کا جواب دیتے نظر آتے ہیں یا کہیں نظر نہیں آتے جبکہ دوسری جانب مساوات،جمہورئت ،آزادی ،حقوق نسواں کی آڑ میں ملک اور معاشرے کی نظریاتی جڑوں میں تیزاب ڈالا جارہا ہے فحاشی او رعریانیت کو آزادی کا نام دے کر وہ کلچر تھوپا جارہا ہے جس کے لئے اقبال وارننگ دے گئے تھے کہ … تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا،ناپائیدار ہوگا کانفرنس میں سب سے اہم گفتگو اردو رسم الخط سے گریزپر رہی ،رومن اردو کے نام سے سوشل میڈیا میں لکھی جانے والی زبان پڑھنے میں تو اردو ہے لیکن لکھنے میں اسے اردو کون کہے گا؟ رومن رسم الخط کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ دن دیہاڑے ہم سے اردوکے قیمتی الفاظ چھین رہی ہے روز کوئی نہ کوئی لفظ دم توڑ رہاہوتا ہے ہوائی اڈہ بیس برس پہلے تک مستعمل تھا آج ’’ ائیر پورٹ ‘‘ اسکا گلا گھونٹ رہا ہے ہم تیزی سے اردو کے خوبصورت لفظ کھو رہے ہیں یہی حال رہا تو اردو پڑھنا ہمارے بس میں نہ ہوگاجب اردو رسم الخط ہمارے لئے اجنبی ہوگیاتواسکی روشنی ماضی کے گوشے میں رکھی تاریخ تک کیسے پہنچائے گی ہماراادب،ہماری ثقافت ،تہذیب سب نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے گا ،خدارا اردو لکھئے اور اردو بولئے ،لفظ مرنے نہ دیجئے کہ ہم میں سے کوئی بھی سکندر اعظم نہیں جو ان الفاظ کی موت پر مزار بنا کر شہر بسائے اور اسے پھالیہ کا نام دے۔