آج کی دنیا میں افراد ہوں یا ممالک تعلقات جذبات اور محبت پر نہیں مفادات کی بنیاد پر استوار کرنے کا چلن ہے۔اسے بدقسمتی کہا جائے یا موسموں کی شدت کا اثر کہ برصغیر آج بھی دماغ کے بجائے دل سے نہ صرف سوچتا ہے بلکہ تعلقات بھی مفادات کے بجائے محبت اور نفرت کی بنیادوں پر قائم کئے جا تے ہیں۔ ہمارے محبوب رانا محبوب اختر خطے کی قیادت کی اس روش کو برصغیر کی حماقت (Subcontinent's Stupidity) کہتے ہیں۔ بات صرف بھارت کے متعصب اور تنگ نظر بنیا حکمرانوں کی ہی نہیں پاکستان کی قیادت نے بھی عالمی برادری میں تعلقات کے لئے اسی قسم کی محبت اور نفرت کو معیار بنا رکھا ہے۔ برصغیر کی یہی حماقت ہے جو پاکستان اور بھارت کے ہاتھ پشت پر باندھ کر دونوں کو ایک دوسرے کی مخالفت کی سمت ہانک رہی ہے ۔ اس رویہ نے دونوں ممالک کی عوام کے مستقبل اور خوشحالی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ عالمی قوتیں بھی اس کمزوری کو اپنی طاقت بناتی آ رہی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے7دھائیوں پر مشتمل تعلقات کو آج بھی مشترکہ مفادات کے بجائے محبت اور مجبوری ہی بنا اور بگاڑ رہی ہے۔ان پر افضل خان کا یہ شعر صادق آتا ہے: تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں یہ سادگی ہی تو ہے کہ امریکہ کی پہلے دن سے پاکستان کے لئے پالیسی گاجر اور چھڑی کی حکمت عملی پر استوار چلی آ رہی ہے تو پاکستان بھی چھڑی سے بچ کر گاجر اٹھانے کی مشق میں مصروف ہے۔ یہ ایسی محبت ہے جس میں نفرت کی آمیزش محبت کو بڑھا دیتی ہے۔ سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات پبلک ڈاکومنٹ بن چکیں کہ جس پستول سے افغانستان کے شہری سید اکبر الدین نے گولیاں قائد ملت لیاقت علی خان کے سینے میں داغی تھیں وہ پستول ہی نہیں گولیوں پر لیاقت علی کا نام بھی امریکہ نے لکھ کر افغانستان بھجوایا تھا۔ یہ بھی امریکہ یہ تھا جو پاکستان کی معیشت اور دفاع ہی نہیں زراعت کو بھی سنبھالتا چلا آ رہا تھا یہ الگ بات ہے کہ معاملہ معیشت کا ہو یا عسکری صلاحیت کا سہارا پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے نہیں بلکہ زمیں بوس ہونے سے بچانے کے لئے دیا جاتا رہا ہے ۔جہاں اور جب امریکی چاہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور بھی کر دیتے ہیں۔ پاکستان امریکی بحری بیڑے کے انتظار میں دولخت ہوا۔ یہ پاکستان کی مجبوری تھی، پاکستان افغانستان کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا یہ محبت کی مجبوری تھی۔ امریکہ نے پاکستان کو امریکی جنگ میں باہمی تعاون کے نام پر ڈالر فراہم کئے یہ امریکی پالیسی کی گاجرتھی اور ڈومور کا مطالبہ اور امداد کی بندش چھڑی ۔ پاکستان کو امریکی جنگ میں امریکی ڈالروںکے چکر میں 70ہزار جانوں اور سو بلین ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امریکی امداد ایسے دھوکے کی عکاسی فراق گورکھپوری کے اس شعر سے ہوتی ہے: جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں یہ انکل سام کی دلفریب آنکھوں کے دھوکے نہیں تو اور کیا ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کو امریکی جنگ میں شامل رکھنے کے لئے بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان کی دہشت گردی کے فروغ کی ذمہ داری سونپے رکھی تو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کی صورت میں پاکستان کے ہاتھ بھی پشت پر باندھ دئیے۔ اس سے بڑھ کر امریکی دلفریب آنکھوں کا دھوکہ اور بھلا کیا ہو سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یہ طعنہ دے کر پاکستان کی 1.3ارب ڈالر کی امداد بند کرنے کا اعلان کیا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو 18سال میں 33بلین ڈالر کی امداد دی مگر بدلے میں امریکہ کو دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیںملا۔ امریکی صدر نے پاکستان کے جس دھوکے کی بات کی یہ خود بھی ایک امریکی دھوکہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو 18برس میں 33ارب ڈالر کی امداد دی مگر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈلوا کر ہر سال پاکستان کو 10ارب ڈالر کا نقصان بھی پہنچایا گیا۔ ایسے ہی دھوکوں کا اثر پاکستان کو اقتصادی بحران کی صورت میں بھگتنا پڑا اور یہ ایک دو برس کی بات نہیں 7دھائیوں پر مشتمل پاکستان امریکہ رومانس کا حصہ ہے ۔ اس مشکل وقت نے پاکستان کو زمینی حقائق کے مطابق خارجہ پالیسی بنانے پر مائل کیا۔ دوست اسلامی ممالک کے جزوی تعاون اور چین کی غیر مشروط معاونت نے پاکستان کو امریکی طوفانوں کے سامنے ڈٹ جانے کی جرات بخشی۔ پاکستان امریکی دبائو اور افغان بھارت سازشوں کے باوجود نہ صرف اپنا وجود بلکہ سٹریٹیجک اہمیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ۔ چین نے سی پیک کے منصوبوں کی صورت میں پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی حیثیت اختیار کر لی اور آج معیشت تیزی سے بحال اور پاکستان کا وقار بلند ہو رہا ہے تو ایک بار پھر امریکہ کے دل میں پاکستان کی محبت نے انگڑائی لی ہے۔ پہلے امریکی صدر نے وزیر اعظم عمران خاں کو کشمیر پر ثالثی کا لالی پاپ دیا پھر امریکہ کی پاکستان میں سابق سفیر اور حالیہ افغانستان کے لئے خصوصی ایلچی ایلس ویلز نے پاکستان کی معیشت کی بحالی پر امریکی خوشی اور شادمانی کا ڈھونگ رچایا۔ پھر محبت کے اظہار کے ساتھ رقیب کی سی پیک کے ذریعے قرضوں میں جکڑنے کی سازش بھی بے نقاب کر دی۔ جس کا جواب پاکستان نے دلفریب محبت کا بھرم رکھتے ہوئے دینا مناسب نہ سمجھا مگر چین کے پاکستان میں سفیرنے یہ کہہ کہ معاملہ صاف کر دیا کہ امریکہ اس وقت کہاں تھا جب پاکستان کو امریکی امداد کی اشد ضرورت تھی۔ جہاں تک پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں مستقبل کے مسائل کا معاملہ ہے تو چین کبھی پاکستان کے مشکل وقت میں قرضوں کی ادائیگی کا تقاضا نہیں کرے گا۔ چین کے سفیر نے امریکہ کی پاکستان کے لئے خارجہ پالیسی کا پول کھول دیا ہے ۔اشاروں میں ہی سہی جناب اختر نظمی کے شعر سے بات واضح ہو جاتی ہے وہ زہر دیتا تو سب کی نگہ میں آ جاتا سو یہ کیا کہ مجھے وقت پر دوائیں نہ دیں یہ وقت پر دوا نہ دینے کا معاملہ نہیں تو اور کیا ہے کہ سی پیک کو متنازعہ کرنے پاکستان کو چین سے دور کرنے کے تمام جتنوں کی ناکامی کے بعد ایلس ویلز نے یہ نوید سنائی ہے کہ امریکہ اپنی کمپنیوںکی صورت میں پاکستان میں 60سے 80ارب ڈالر سرمایہ کاری کرکے ذریعے پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے آ رہا ہے البتہ اس بار یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ اس امریکی اقدام کا مقصد پاکستان کو چین اور امریکہ کے درمیان خارجہ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے پر مجبور کرنا ہے۔ امریکہ کے سینے میں پاکستان کا یہ درد یونہی نہیں اٹھا ٹرمپ انتظامیہ کی اس مجبوری کا سبب امریکی کانگریس کی مفصل رپورٹ ہے جس میں پاکستان کی سرکشی کی وجوہات بیان کرنے کے ساتھ آمادہ بغاوت محبوب’’ آپ کے قدموں میں‘‘ والا چلہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔ کانگریس کی اس رپورٹ کے اقتباسات اکنامک ٹائمز نے اپنی تحریر میں شائع کئے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے 80ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید ایک ایسا سہانہ خواب ہے جس کی تعبیر بھیانک ہو سکتی ہے۔ گزشتہ کالم میں ایک شعر کے وزن کے گرنے کی نشاندہی عہد حاضر کے غالب جناب ظفر اقبال نے کی جو خاکسار کے لئے باعث صد افتخار ہے اور تصیح پر راقم احسان مند۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے جناب ظفر اقبال کے ہی ایک شعر پر کالم کا اختتام کرتا ہوں: خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہیے