بیک چینل ڈپلومیسی بین الاقوامی سیاست میں کوئی انہونی چیز نہیں ہے۔ ریاست سے ریاست کی سطح پر تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمیشہ سے دنیا میں موجود رہی ہے۔ اسی طرح پاک بھارت دو طرفہ تعلقات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہے ہیں۔بلکہ ، جنوبی ایشیا کے یہ دونوں مخالف ملک مختلف مواقع پر خفیہ بات چیت میں مصروف رہے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں مخالف ایک دوسرے سے تصادم کے باوجود خفیہ بات چیت میں مصروف تھے۔ سرد جنگ کے دوران ، دونوں سپر طاقتیں امریکہ اور سابقہ سوویت یو نین جوہری ہتھیاروں سے متعلق امور پر خفیہ بات چیت میں مصروف رہی تھیں۔ یہ بھی کھلا راز ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک ، تکنیکی طور پرجنگی صورتحال کی حالت میں بھی ، خفیہ مذاکرات کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ امریکی صدر نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے پاکستان کے دورے کے دوران خفیہ طور پر بیجنگ کا دورہ کیا تھا اورصدر نکسن کے دورہ چین کی بنیاد رکھی۔ اس ملاقات کا اہتمام پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے مضبوط سفارتی تعلقات کی بنا پر کیا تھا۔ کسنجر کے خفیہ سفر کو مخالف ملکوں کے مابین خفیہ گفتگو کی ایک عمدہ مثال دی جاسکتی ہے۔اطلاعات کے مطابق ، تناؤ کو کم کرنے اور جموں و کشمیر کے بنیادی مسئلے سمیت تمام بقایا امور کو حل کرنے کے لئے پاکستانی اور بھارتی عہدیداروں میں بیک چینل کے ذریعے خفیہ بات چیت کا انعقاد ہوا۔دسمبر 2020کے بعد سے ہندوستان کی طرف سے ٹھوس روابط کے قیام کے لئے پاکستانی حکومت سے رجوع کرنے کے بعد، ان مذاکرات میں تیزی آئی ہے۔ پاکستانی قیادت نے اس کا مثبت جواب دیا جس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے سمیت با ہمی اعتماد سازی کے اقدامات منظرعام پرآ ئے ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک کے مابین سفارت کاری کا ایک نیا چینل دوبارہ کھولنے کے بعد کشمیر کے تنازعہ کی شدت کو کم کرنے کی نئی کوشش میں دونوں فریقوں کے سینئر انٹیلی جنس عہدیداروں کے درمیان دبئی (متحدہ عرب امارات) میں بات چیت ہو رہی ہے تاکہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک قابل عمل روڈ میپ بنایا جا سکے۔ تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایجنڈا متعلقہ مو ضوعات کی طرف جانے کے بعد خصوصی ماہرین ان مذاکرات میں شامل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو اس بار تناؤ کی کمی میں جو دلچسپی ہے ، یہ نہ صرف کرونا کی وجہ سے ہے ، بلکہ اس لئے بھی کہ بھارت کو چین کے ساتھ ملحقہ سرحد پرکشیدگی کا سامنا ہے ، جب کہ پاکستان کو اپنے معاشی مسائل کے حل اور افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد کی صورتحال کو اپنے حق میں رکھنا ہے۔ ماضی میں بھی ، پاکستان اور بھارت خفیہ بات چیت میں شریک رہے ہیں جس کے مفید نتائج برآمد ہوئے اور ان خفیہ مذاکرات نے پاکستان اور ہندوستان کے مابین تناؤ کی شدت کو کبھی کم کیا ہے اورکبھی اگلی دفعہ کے مذاکرات کے لئے ایک جامع روڈ میپ دیا ہے۔ یہ بیک چینل ڈپلومیسی ہی تھی جس کی وجہ سے ۹۹۹۱ میں نواز شریف کے دوسرے دور میں لاہور امن معاہدہ ہوا۔ تاہم کارگل جنگ کی وجہ سے لاہور امن معاہدہ کامیاب نہیں ہوسکا جس کے لئے جنرل پرویز مشرف کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ بیک چینل نے صدر مشرف کے دور میں بھی کام کیا ہے اورلامباہ۔عزیز بیک چینل نے خفیہ مذاکرات کے ذریعے پاکستان بھارت معاہدہ کے فریم ورک کو تیار کرنے میں مدد دی جسے بعد میں "مشرف۔منمو ہن فارمولا" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کے مشہور نکتہ "سرحدوں کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا بلکہ انہیں غیر متعلق بنایا جاسکتا ہے" کو بھی سفارتی بیک چینل کے ذریعے پاکستان کے ساتھ عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی۔ مذاکرات میں تعطل کو توڑنے کے لئے بیک چینل ڈپلومیسی کا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال میں کنٹرول لائن پر جنگ بندی یقینی طور پر ایک مثبت پیشرفت ہے۔ اور دیرپا امن کے قیامسے پہلے ، جموں وکشمیر کے اگست 2019سے پہلے کی حیثیت کی بحالی کے مرحلے تک پہنچنا اورپاکستان اور بھارت کے مابین پائیدار امن کے قیام کویقینی بنانے کے لئے ابھی بہت سے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ بہر حال ، آج کے حالات گزشتہ حالات کے مقابلہ میں بہت مختلف ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری کے عمل کا باعث بنے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر میں کشمیریوں کی آبادی کی تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے کشمیر سے با ہرکے لوگوں کی آبادکاری اور ہندوستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر کی متنازعہ ریاست کی خود مختار حیثیت کے خاتمے نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے جبکہ مودی کے جنگ پسند اور غیر لچکدار رویہ نے دونوں ممالک کے مابین امن کے قیام کی کوششوں کو مشکل بنا دیا ہے۔ ماضی کی کوششوں سے جو سبق سیکھا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنا چاہئے تاکہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن حاصل ہوسکے۔ پاکستان اور بھارت کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو متنازعہ معاملات کے فوری حل کے لئے جلد بازی نہ کرے بلکہ جنوبی ایشیا میں معاشی خوشحالی اور دیرپا امن کے قیام کے حتمی مقصد کے حصول کے لئے آگے بڑھے لیکن اس معاملے میں دونوں مما لک کو امن مخالف ایک مضبوط اور بااثر لابی کا سامنا ہے جو امن کی کاوششوں کو سبوتاژ کر سکتی ہے۔ لہذا ، یہ ضروری ہے کہ یہ مذاکرات خفیہ اور خاموشی سے آگے بڑھتے رہیں تاکہ جب تک پائیدار امن کے لئے کوئی واضح اور قابل عمل روڈ میپ عمل میں نہ آجائے انھیں عام نہ کیا جا ئے۔ ماضی میں امن کی کوششیں اس لیے بھی ناکام ہوئیں کہ پاکستان میں سول اور فوجی قیادتوں کے مابین نقطہ نظر کے اختلافات تھے۔ اس وقت پاکستان میں سول اور عسکری قیادتیں ’ایک صفحے پر‘ ہیں۔ تاہم ان مذاکرات کو کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی بھی ’ایک صفحے‘ پر قائم رہیں۔