افغانستان کی سرزمین پر امریکہ سمیت اڑتالیس ملکوں کے غاصبانہ بوٹ دندنا رہے تھے، لیکن اس کی فضائوں سے جو گولہ بارود کی بارش برسائی جاتی تھی اس کا مرکز پاکستان تھا۔ امریکی کانگریس کے سامنے پیش کی جانے والی ہماری اٹھار ماہ کی کارکردگی کی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے تین ہوائی اڈوں پر ایک ایسا ریڈار سسٹم نصب کر دیا تھا، جو پورے پاکستان کی فضائی نگرانی کر سکتا تھا۔ اس ریڈار سسٹم کی چھائوں میں ان تین ہوائی اڈوں سے ستاون ہزار دفعہ امریکی جہازوں نے اُڑان بھری اور افغان ملتِ اسلامیہ کے ان جانبازوں اور شہریوں پر بم برسائے جو امریکہ سمیت اڑتالیس ملکوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف لڑ رہے تھے۔ جب کسی علاقے پر زمینی اور فضائی دونوں اطراف سے حملہ ہو تو لوگ جان بچا کر بھاگتے ہیں۔ جدید دور میں جب کبھی جنگ ہوئی ہے، تو انسان پڑوسی ملکوں کی سرحدیں عبور کر کے وہاں پناہ کی تلاش میں ہجرت کرتے رہے۔ تازہ ترین جنگ جو روس اور یوکرین کے درمیان برپا ہے ،اس کے نتیجے میں ابھی یورپی ممالک میں 78 لاکھ یوکرینی مہاجر رجسٹرڈ کئے جا چکے ہیں۔ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ یورپی یونین کے تمام ممالک نے ان کے استقبال کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے۔ لیکن جب افغانستان پر حملہ ہوا، تو اس رپورٹ کے مطابق امریکہ کا ساتھ دینے کے لئے پاکستان نے افغانستان اور ایران کی سرحد پر ایک لاکھ پندرہ ہزار سپاہی تعینات کر دیئے۔ ایران کی سرحد پر بھی اس لئے تعینات کئے گئے کہ کہیں کوئی بھولا بسرا یا بھٹکتا ہوا افغانی ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش نہ کر سکے۔ بہانہ یہ تھا کہ ہم القاعدہ اور طالبان کے لوگوں کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر بنیادی مقصد پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان نفرت کی خلیج کو گہرا کرنا تھا۔ یہ انگریز کا سو سال پرانا خواب تھا جس کی تکمیل کے لئے اس نے تین افغان جنگیں لڑیں اور بری طرح شکست کھانے کے بعد ڈیورنڈ لائن پر سمجھوتہ کر کے وہاں پختہ مورچے بنا دیئے گئے۔ ایسے مورچے آپ کو پورے ہندوستان کی کسی بھی سرحد پر نہیں ملیں گے۔ انگریز جانتا تھا کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے جب تک افغان ملتِ اسلامیہ کے ساتھ تعلقات ٹھیک رہے، وہ اس خطے میں مستحکم رہے اور ہندوئوں کو ان کے خلاف اُٹھنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب پورے ہندوستان سے ہندو مشترکہ افواج سدا شورائو بھائو کی قیادت میں اکٹھا ہو کر اس خطے کو ہندو توا میں تبدیل کرنے کے لئے نکل پڑی تھیں تو شاہ ولی اللہ نے افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کو مدد کے لئے خط لکھا تھا۔ احمد شاہ ابدالی کے صرف 41 ہزار آٹھ سو فوجیوں نے 14 جنوری 1761ء کو پانی پت کے میدان میں سدا شورائو بھائو کے چار لاکھ کے لشکر کو ذلت آمیز شکست سے دو چار کیا تھا۔ بارڈر پر ایک لاکھ پندرہ ہزار پاکستانی سپاہیوں کی 2002ء میں تعیناتی ایک آغاز تھا ،جس کی انتہاء وہ باڑ ہے جو پاکستان اور افغانستان کے بارڈر پر لگائی گئی ہے۔ یہ انگریز کا دو صدیاں پرانا خواب تھا جسے پورا کیا گیا۔ باڑ لگانے والے خوب جانتے تھے کہ یہ لکیر بالکل غیر فطری ہے اور انگریز نے عسکری اہمیت کے نکتہ نظر سے کھینچی تھی۔ قبیلہ ایک جانب آباد ہے تو اس کے کھیت اور ضروریاتِ زندگی کے مراکز دوسری جانب۔ یہاں تک کہ لوگ ایک طرف رہ گئے اور پینے کے پانی کے قدیم کنویں دوسری جانب۔ افغانستان میں برپا کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہمارا کوئی جذباتی واسطہ تھا اور نہ ہی کوئی ہماری سا لمیت کا مسئلہ اس سے وابستہ تھا۔ یہ ایک جنگ تھی جو ہمارے ایک پڑوسی ملک پر تھوپی گئی تھی۔ مگر ہم اس جنگ میں صرف اور صرف امریکی دبائو اور پیسے کے لالچ میں کودے۔ پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ ہماری سالانہ امریکی امداد ایک کروڑ ڈالر سے بڑھا کر ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ کر دی گئی۔ اس جنگ میں شمولیت کے بدلے میں جہاں پاکستان نے امریکیوں کے سات کے سات مطالبات مانے تھے وہیں ان کے سامنے اپنے مطالبات کی بھی فہرست رکھ دی۔ حیران ہو جایئے کہ ان میں سے ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں تھا جس کا تعلق ان مظلوم عوام سے تھا، جنہوں نے بیس سال اس جنگ میں بے گناہ جانوں کی قربانیاں دیں۔ پہلے دو مطالبے یہ تھے کہ ہمیں امریکہ کے جدید ترین ہتھیاروں تک رسائی دی جائے اور قرضے معاف کئے جائیں۔ پاکستان کی خواہشات کا احاطہ کرتے ہوئے بش ایڈمنسٹریشن نے 1999ء میں مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد لگائی جانے والی پابندیاں ختم کر دیں اور اکتوبر 2001ء میں نئے قوانین منظور کر لئے گئے۔ پاکستانی حکومت کی خواہشات کی جو فہرست امریکی حکومت کو فراہم کی گئی وہ ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں مختلف قسم کے میزائل آرٹلری اور راکٹ لانچنگ میزائل سسٹم، بغیر پائلٹ سے اڑنے والے جہاز، اور گذشتہ دور میں روکے ہوئے ایف 16 جہاز شامل تھے۔ ان میں سے کچھ ملا اور کچھ نہیں ملا۔ لیکن اس بیس سالہ جنگ کی اصل روئیداد یہ ہے کہ ہم نے ستر ہزار جانیں گنوائیں، ہمارے مغربی بارڈر غیر محفوظ ہوئے، بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات ایک ایسی آگ میں جھلسے جس کی شدت میں اب تک کمی ہوئی ہے اور نہ ہی ہمارے جانی و مالی نقصانات ختم ہوئے ہیں۔ امریکہ کی نئی ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی منصوبہ بندی اسی دن کر دی گئی تھی جب وہ افغانستان سے ذلت آمیز شکست کے بعد نکل رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان سے ایک بار پھر ویسی ہی مدد چاہی تھی جیسے اسے 2001ء میں مشرف حکومت سے ملی تھی، تاکہ وہ پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان کو مسلسل بے سکون کر سکے۔ امریکہ اسے نگرانی کا نام دیتا ہے۔ اسی امریکی فرمائش سے متعلق جب وزیر اعظم عمران خاں سے سوال کیا گیا تو اس نے اپنا بہت زیادہ مشہور ہونے والا فقرہ "Absolutely Not" (ناممکن) بولا۔ اس دن کے بعد سے امریکہ اور عمران کے تعلقات آج تک ٹھیک نہیں ہو سکے۔ امریکہ افغانستان سے جانے لگا تو اسے پاکستان میں ایک ٹھکانے کی اُمید تھی وہ تو اسے نہیں مل سکا، مگر اس کے ساتھ کام کرنے والے ایک لاکھ چالیس ہزار افغانیوں اور دیگر قوموں کے افراد کو براستہ پاکستان امریکہ اور یورپ پہنچایا گیا۔ طالبان حکومت نے چند ماہ بعد ہی وہاں پر موجود ٹی ٹی پی کے ارکان کو پاکستان میں پر امن طریقے سے آباد کرنے کے لئے حکومتِ پاکستان سے مذاکرات شروع کروائے۔ پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں اس منصوبے میں پوری طرح شریک تھے۔ پاکستان نے تین ہزار سے زیادہ گرفتار لوگوں کو رہا کر دیا، یہاں تک سوات کا ریڈیو چلانے والے، مسلم خان کی پھانسی کی سزا بھی معاف کروائی گئی۔ نیشنل سکیورٹی کونسل میں باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا کہ کیسے ان پینتالیس ہزار ٹی ٹی پی کے لوگوں کو آباد کیا جائے۔ اس کے لئے باقاعدہ فنڈز کی بھی منظوری دے دی گئی۔ ٹی ٹی پی کا پر امن ہو جانا امریکیوں کے لئے ایک ڈرائونا خواب تھا جو اس جنگ کی سرزمین (War Theater) کو بند نہیں کرنا چاہتے تھے۔ عمران خاںکو برطرف کر دیا گیا۔ یہ امریکہ کے رجیم چینج آپریشن کے تسلسل میں برطرف ہونے والا 73 واں سربراہ تھا۔ تمام امن مذاکرات ختم اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو امریکی دوروں پر۔ جس آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو امریکہ نے اس کے چھ سالہ دور میں کبھی نہیں بلایا تھا اسے برطانیہ اور امریکہ دونوں نے شاندار استقبال کے ساتھ مدعو کیا۔ قمر جاوید باجوہ کے دورے کا احوال تو امریکی چند سال بعد سکیورٹی پیپرز میں کھول دیں گے، لیکن بلاول بھٹو، امریکی امداد کی خوشخبری لے کر وطن لوٹا ہے۔ یہ امداد اس شرط پر دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے مسلمان افغان بھائیوں سے لڑیں۔ ایسا ہوا تو زمینِ وطن پھر ایک طویل عرصے کے لئے آگ و خون میں نہلائی جائے گی۔ امریکی امداد جس سے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے پیٹ بھریں گے، مگر اس کی قیمت پاکستانی عوام چکائے گی۔ (ختم شد)