سندھ سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ممبر قومی اسمبلی کیسومل داس پاکستانی زبانوں کو قوی زبانوں کا درجہ دینے کے حوالے سے ایک ترمیمی بل پیش کرنے جا رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایکٹ ہذا دستور ( ترمیمی ) ایکٹ ۲۰۲۰ء کے نام سے موسوم ہوگا ۔ یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں ، آرٹیکل ۲۵۱ میں ، شق (۱) میں پہلی سطر میں آنے والے لفظ ’’ زبان ‘‘ کو لفظ ’’ زبانیں ‘‘ سے تبدیل کر دیا جائے گا ـ۔ لفظ ’’ ہے ‘‘ کو لفظ ’’ ہیں ‘‘ سے تبدیل کر دیا جائے گا اور لفظ اور سکتہ ’’ اردو ‘‘ کے بد الفاظ اور سکتہ جات ’’ پنجاب، سندھی ، پشتو، بلوچی ، براہوی ، ہندکو اور سرائیکی ‘‘ شامل کر دیئے جائیں ۔ بل کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کیسو مل داس لکھتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں زبانیں یاداشت کو پرانی نسل سے نسل نو میں منتقل کرنے کا مضبوط ذریعہ سمجھی جاتی ہے ۔پاکستان کو موہنجودڑو، ٹیکسلا، گندھارا، ہڑپہ اور مہر گڑھ کی قدیمی تہذیبیں ورثہ میں ملی ہیں۔ چونکہ پاکستان کی بڑی مادری زبانیں بلوچی، براہوی ، پنجابی ، پشتو، سندھی ، سرائیکی اور ہندکو ہیں اور ان زبانوں نے ہماری علاقائی اور قومی تاریخ اور ورثہ کو محفوظ رکھا ہے ۔ پاکستان کا دستور ملک کی بنیادی دستاویز ہے اور اس میں تمام زبانوں کو مساوی طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے اور ایک زبان کو کسی دوسری زبان پر ترجیح نہیں دینی چاہئے ۔ لہٰذا اس بل کا مقصد دستور میں تمام زبانوں کو تسلیم کرنا اور پاکستان کے کسی بھی گوشے سے تعلق رکھنے والے ، کوئی بھی زبان بولنے والے‘ ملک کے تمام افراد کو قبول کرنے کی مثال قائم کرنا ہے۔ اس طرح ملک کے شہریوں میں مساوات کو یقینی بنایا جائے گا ، اس لئے مندرجہ بالا زبانوں کو پاکستان کی قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے ۔ کیسومل داس کی سوچ خوش آئند ہے ۔ مگر یہ بھی دیکھئے کہ گزشتہ دور میں ن لیگی رکن اسمبلی ماروی میمن نے بھی پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا بل پیش کیا تھا اور اس پر پیش رفت بھی ہوئی مگر ن لیگ نے وہ بل منظور نہ کرایا ۔ کہا جاتا ہے کہ ماں بولیوں میں تعلیم اور پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ن لیگ ہے ۔ اگر یہ رکاوٹ دور ہو جائے تو یہ عمل ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے کہ پاکستانی زبانوں کو ہی ان کااصل مقام دیکر ہی پاکستانیت کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں ۔ اردو زبان رابطے کی زبان بن چکی ہے ‘ لہٰذا اسے قومی رابطے کی زبان کا نام دیا جائے اور پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے ۔ اس کے ساتھ پنجابی دانشورو پنجابی اخبار بھلیکھا کے ایڈیٹر مدثر اقبال بٹ ’’ پنجابی زبان و صحافت کے ساتھ دشمنی کیوں؟‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم آواز پنجاب میں لکھتے ہیں کہ ’’ زبان کسی بھی خطے کی تاریخی اور ثقافتی ترجمانی کرتی ہے ۔ زبان سے رشتہ جتنا گہرا اور مضبوط ہوگا خطے کا فکری حوالہ بھی اتنا ہی توانا ہوگا۔ دنیا میں یہی فارمولا رائج ہے کہ جن اقوام نے اپنی جڑوں کے ساتھ تعلق مضبوط رکھا ان کی ترقی کا سفر تیزی سے طے ہوا۔ یہ تعلق چونکہ فکری اور ثقافتی بنیادوں پر صدیوں پرانی گہرائی کی بات کرتا ہے اس لئے ایک ہی لہجے یا سوچ میں پنپتے خیالات نسلوں میں منتقل ہوتے اور ترقی پاتے ہیں ۔ ‘‘ ملک کی 60 فیصد زبان کو محروم رکھنا ناانصافی ہے ۔ ‘‘پنجاب میں صرف پنجابی نہیں بلکہ سرائیکی اور پوٹھوہاری بھی بڑی زبانیں ہیں ، اس لئے وسیب کے سکولوں میں سرائیکی، پوٹھوہار میں پوٹھوہاری اور پنجاب میں پنجابی کو تعلیم کا حق ملنا چاہئے اور جس طرح خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں پشتو اور بلوچی کے علاوہ دیگر زبانوں کو بھی تعلیم کا حق دیا گیا ہے ،اسی طرح سندھ میں بھی سرائیکی و دیگر زبانوں کو تعلیم کا حق ملنا چاہئے ۔ اسی طرح ماں بولی میں تعلیم کے تقاضے پورے ہونگے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جن کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوںنہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں اس کے باوجود پاکستان کے حکمران ان زبانوں کو ختم کرنے کے در پے ہیں، کسی بھی زبان اور ثقافت کے ختم ہونے کا مقصد خطے کی تاریخ و تہذب کا اختتام اور موت سمجھا جاتاہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح لکھا ہے کہ ماں بولیوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر عمل اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ پاکستان میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ کیوں ہے؟ کیا پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کمتر ہیں یا ان کے بولنے و الوں میں کوئی کمی ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں۔ یہ دھرتی کی زبانیں ہیں اور ان کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہیں، ان کے توانا اور مضبوط ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حملہ آور اور بدیسی حکمران صدیوں سے ان زبانوں کو مٹانے کے در پے ہیں، اس کے باوجود یہ زندہ ہیں تو ان کی مضبوطی اور توانائی ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے، جہاں تک بولنے والوں کی بات ہے تو بولنے والے تو مجبور ہیں ، ریاست تعلیمی اداروں میں جو زبان رائج ہو گی وہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے۔ حکمرانوںکو یہ تو یاد ہے کہ اردو پڑھائی جائے کہ یہ قومی زبان ہے، انگریزی پڑھائی جائے کہ اردو اعلیٰ تعلیم اور دفتری امور کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی ، عربی پڑھائی جائے کہ یہ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، فارسی کو بھی ختم نہ ہونے دیا جائے کہ اس نے برصغیر پر ہزار سال حکومت کی۔ اگر حکمرانوں کو یاد نہیں تو یہ کہ ماں دھرتی کی بولیاں اور زبانیں جو اس دھرتی کی اصل وارث ہیں، کا بھی کوئی حق ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بدیسی زبانوںکو آپ مسلط کر دیں اور جو دیس کی زبانیں ہیں ان کو آپ کچل کر رکھ دیں۔ اس سے بڑھ کر لسانی دہشت گردی کیا ہوگی؟ اس سے بڑھ کر لسانی تعصب کیا ہوگا؟ میں واضح بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی قومیں زبانیں پاکستانی زبانیں ہیں، ان کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے ۔