پاکستان ایک دن میں نہیںبنا۔یہ صدیوں کی کہانی ہے۔یہ ایک روایت ہے جس کی لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان‘ مال اور آل کی قربانی دے کر قائم رکھا ہے یہ روایت حقیقت اور سچائی کی آئینہ دار ہے۔ سابق مشرقی پاکستان خطے کی ہندو مسلم کشمکش کی روایت کا مظہر تھا ،بنگالی مسلمان خطے کی عظیم س مسلم روایت کے امین ہیں، انہوں نے ہندو بھارت کا حصہ بننے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ مزاحمت کی نئی روایت اور جہت کی بنیاد رکھی۔ ریاست کا جنم دوچار برس میں نہیں ہوتا۔یہ کئی مراحل سے گزر کر بنتی ہے۔ان مراحل کو کشمیر‘ بھارت‘ فلسطین ‘ لبنان‘ افغانستان‘ بوسنیا‘ روہنگیا‘ فلپائن وغیرہ سے پوچھیے جو آج بھی آزاد ریاست کے قیام کے لئے اپنی نسلوں کے خون سے آبیاری کر رہے ہیں۔بھارت کی کروڑوں اچھوت اقوام چار پانچ ہزار سال سے آزاد ریاست کے خواب کے ساتھ اپنی قومی‘ نسلی‘ لسانی‘ ریاستی‘ معاشی‘ معاشرتی ‘ تہذیبی‘ تمدنی ‘ تاریخی روایت کو بھی کھو بیٹھے۔آج سکھ اپنی جداگانہ سلامتی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔پاکستان جنوبی ایشیا اور برصغیر میں طاقتور اور توانا اسلامی روایت کا امین ہے جس کو پاک بھارت مسلمانوں نے متحدہ کوشش سے امت کی شناخت کے ساتھ قائم رکھا۔شاعر نے خوب کہا تھا کہ: ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے!! اس دیس کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے جہاں تک مسلمانوں کی جداگانہ شناخت کا تعلق ہے‘ مسلمانوں نے کوئی انوکھا مطالبہ یا مظاہرہ نہیں کیا۔ہندو نسل نے بدھ اور مسلم ادوار کے طویل دورانیے میں بھی اپنی جداگانہ برہمنی شناخت کو قائم رکھا اور برطانوی ہندی راج کے دوران ہندو‘ یہودی اور صلیبی گٹھ جوڑ کے ساتھ ہندی مسلمانوںکی جداگانہ اسلامی شناخت کو حیلے‘ بہانے‘ بہلانے اور دھونس دھاندلی سے ختم کرنا چاہا مگر تحریک پاکستان کی بے لوث ‘ مخلص اور جرأت مند قیادت نے ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کے تحت اپنا وجود اور شناخت ختم ہونے بچائی اور اسی لئے قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے وقت فرمایا تھا کہ ’’اس وقت میں نے ایک قلعہ مسلمانوں کو لے دیا ہے جہاں وہ قوتیں مجتمع کریں اور اپنی اہلیتوں سے کام لے کر اپنے شاندار ماضی کا احیا کر لیں مجھے جو کام کرنا تھا وہ میں نے کر دیا۔ قیام پاکستان کے حوالے سے تین باتیں غلط العام ہیں۔پہلی بات پاکستان برطانوی پالیسی عوام کو’’ آپس میں لڑائو اور راج کرو‘‘کا نتیجہ ہے۔آل انڈیا مسلم لیگ انگریزوں نے بنائی۔قائد اعظم سیکولر تھے اور سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان برطانوی یعنی مغربی اور ہندو کانگرسی فکرو و عمل اور سیاست و تدبر کی شکست ہے۔برطانوی عالمی طاقت اور جنوبی ایشیا کی ابھرتی ہوئی ہندو سیاست و قیادت کی ناکامی کا مظہر ہے۔تقسیم ہند کے وقت برطانوی وزیر اعظم مسٹر ایٹلی تھے جنہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ برطانوی سرکار تقسیم ہند کی حامی نہیں تھی۔ برطانیہ مغربی جمہوری اصول کے مطابق ہندوستان کی اکثریتی آبادی ہندو کے حوالے کرنا چاہتا تھا مگر قائد اعظم نے ہندی مسلمان آبادی کو آزاد مسلم ریاست پاکستان کے حصول کیلئے متحد‘ منظم اور دیوانہ بنا دیا تھا اگر ہم پاکستان نہ بناتے تو طویل خانہ جنگی ہوتی اور مسلمان فطرتاً جنگجو تھے اور ہندوستانی فوج می بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی جو لڑ کر پورا پاکستان بھی لے سکتے تھے۔ہم نے تقسیم ہند دوبارہ متحدہ ہندوستان بنانے کے لئے کی تھی۔تقسیم یا قیام پاکستان مسلمانوں کے ایمان‘ اتحاد اور تنظیم نے بنایا ۔قائد اعظم کی قیادت‘ آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم سازی اور مسلمان عوام کا پاکستان کے حصول کے لئے سیسہ پلائی دیوار کا بننا ایک حقیقت تھی جس کو برطانوی صحافی بیورلے نکلس نے اپنی کتاب میں اس طرح بیان کیا ہے کہ قائد اعظم ایک دیوقامت قائد اور شخصیت تھے ، ان کے ہاتھ میںایشیا کی تقدیر تھی جو یہ چاہیںگے،وہ ہو گا کیونکہ کروڑوں مسلمان ان کے اشارہ پر اپنی جان قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔حقیقت بھی یہی ہے کہ گاندھی‘ نہرو‘ پٹیل شکست خوردہ لیڈرز ہیں۔قیام پاکستان کے بعد پاکستانی اشرافیہ نے نظام‘ انتظام اور استحکام کے لئے کوتاہی برتی ہے جس کا خمیازہ آج بھی پاکستانی ریاست اور عوام بھگت رہے ہیں۔اس حقیقت کو کوئی ذی شعور رد نہیں کر سکتا کہ برطانوی راج میں تمام سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور مذہبی جماعتیں اور ادارے برطانوی اجازت اور سرپرستی میں بنتے تھے۔آل انڈیا کانگرس کی طرح آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی برطانوی سرپرستی میں جنم لیا مگر اس سیاسی جماعت کا جنم کانگرس کے جنم سے یکسر مختلف تھا۔کانگرس 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز برطانوی سرکار کو وفادار عوامی ہندو قیادت فراہم کرتی تھی جبکہ آل انڈیا مسلم لیگ نے متحدہ بنگال کی انتظامی تقسیم اور ذمہ داری کے تناظر میں جنم لیا۔ناقدین کا کہنا ہے کہ قائد اعظم سیکولر تھے اور سیکولر آئین اور ریاست چاہتے تھے اس ضمن میں قائد اعظم کی 11اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ قائد اعظم یورپی تعلیم و تربیت کے پروردہ اور تحصیل یافتہ تھے ان کی انگریزی زبان کی مہارت کو خود انگریز اشرافیہ بھی تسلیم کرتی تھی قائد اعظم نے ساری زندگی لفظ سیکولر استعمال نہیں کیا تو آج کا ناقد بلکہ ناقدین کا گروہ مذکورہ تقریر کے معانی کو سیکولرزم سے کیوں جوڑتے ہیں اگر قائد اعظم سیکولر کا لفظ استعمال کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے مگر انہوں نے احتیاطاً یہ لفظ کبھی استعمال نہیں کیا ۔مذہبی آزادی باہم رواداری اور یکجہتی کا مظہر ہے اور اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ غیر مسلم اکثریتی آبادی پر رواداری اور عدل کے ساتھ حکمرانی کی ہے قائد اعظم کی مذکورہ تقریر بھی مسلمانوں کی روشن روادار تاریخ کی روایت ہے اسی مذکورہ تقریب میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے قائد اعظم کی راہنمائی کے لئے کہا کہ پاکستانی ریاست اکبر اعظم کی پالیسی کو اپنائے گی تو قائد اعظم نے فوراً کہا کہ اکبر اعظم پیغمبر اسلام محمدؐ کی روادار اور عدل انصاف کی پالیسی کا معمولی پرتو ہے۔ ہم پاکستان میں قرآن اور اسوۂ رسول ﷺکی اصولی اور آفاقی پالیسی کو اپنائیں گے۔یہی بات قائد اعظم نے 25جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے خطاب میں دہرائی کہ پاکستان کا آئین اسلامی شریعت پر مبنی ہو گا۔