انتہائی قطعیت کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ اگر اگست1988ء میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق فضائی حادثے کا شکار ہو کر ہلاک نہ ہوتے تو پاکستان میں ان کی زندگی اور اقتدار میں تو کم از کم کبھی آزادانہ، غیر جانبدارانہ انتخابات نہ ہوتے۔ جولائی1977ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اپریل1979میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھانے کے چھ سال بعد جو جنرلوں نے انتخابات کرائے وہ غیر جماعتی تھے۔ یعنی1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لینے والے تمام ہی امیدوار کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ تو تھے مگر انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشلائی انتخابی قوانین کے تحت آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا۔۔۔گو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کا تختہ الٹنے کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں دعویٰ کیاتھا کہ وہ چار ماہ کے اندر انتخابات کرادیں گے۔ مگر جنرل ضیاء الحق کی قید سے رہائی کے بعد جو بھٹو صاحب کا تاریخی استقبال سارے ملک میں ہوا۔۔۔ اس سے فوجی ڈکٹیٹر کو اندازہ ہوگیاتھاکہ وہ زندہ بھٹو کے ہوتے ہوئے اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے۔۔۔ 25فروری1985ء کو قومی اسمبلی کی237نشستوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کیلئے جو28فروری کو انتخابات ہوئے اس کا جنرل ضیاء الحق مخالف محاذ جس میں ایم آر ڈی اور پیپلزپارٹی شامل تھی، نے بائیکاٹ کیا۔پی پی پی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس انتخابی بائیکاٹ کاساری زندگی افسوس رہا۔۔۔ ان کا یہ افسوس اور پچھتاوا بعد میں اس لئے بھی درست ثابت ہوا کہ1985ء کے انتخابات کے بعد سارے ملک میں ایک ایسی خلائی مخلوق نے جنم لیا جنہیں بازاری زبان میں’’لوٹا‘‘ کہاجاتاہے۔1985ء کی اس غیر جماعتی اسمبلی نے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم منتخب کیا تو انہوں نے جنرلوں کی ’’چھتر چھایہ‘‘ میں مسلم لیگ جونیجو کی بنیاد رکھی ۔جس کا حصہ ہمارے محترم میاںنواز شریف بھی تھے مگر جنہوں نے تین سال بعد محمد خان جونیجو کو نکال باہر کرکے مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھ دی۔ پیرپگارا کے مرید بظاہر سیدھے سادے محمد خان جونیجو کے سر میں وزیراعظم بنتے ہی یہ سودا سماگیاتھا کہ وہ مارشل لاء کے خاتمے کے ساتھ ساتھ جنرل ضیاء الحق کو بھی ان کی بیرک میں واپس بھیج دیں گے۔ مگرPoorمحمد خان جونیجو یہ بھول گئے کہ وہ عوام کی نہیں مارشل لاء کی بیساکھیوں سے وزیراعظم کے عہدے پر بٹھائے گئے ہیں۔۔۔29مئی1988ء کو غیر ملکی دورے سے واپسی پر جب وہ ایئرپورٹ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے مستقبل کے عزائم کااظہار کررہے تھے تو ان کے ایک مشیر نے کان میں انہیں یہ مژدہ سنایا کہ باہر کھڑی ان کی گاڑی سے جھنڈا اتار لیاگیا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے انہیں کرپشن اور اپنی حدود سے تجاوز کرنے پر وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا ہے۔ وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد ان کی موت بیماری اور گمنامی میں ہوئی۔جنرل ضیاء الحق کے سارے مارشلائی دور میں بانی پاکستان پیپلزپارٹی ذوالفقارعلی بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے بڑی جرأت اور استقامت سے ضیاء الحق کے مارشل لاء کا مقابلہ کیا۔۔۔ نوجوان اور نازو نعم میں پلی بے نظیر بھٹوکو سندھ کی جیلوں میں انتہائی ناگفتہ بہ ماحول میں رکھاگیا۔ جلاوطنی کے دور میں بھی انہوں نے بڑا کٹھن وقت گزارا۔۔۔ عالمی تاریخ میں وہ یقینا ان چند رہنماؤں میں سے ایک تھیں۔۔۔ جن کی واپسی پر ایسا والہانہ استقبال ہوا جس کی برصغیر پاک و ہند کی حد تک تومثال نہیں ملتی۔۔۔ اپنی واپسی کے اگلے دو سال ان کا بیشتر وقت نظر بندی میں گزرا۔۔ اگست1988ء میں جب جنرل ضیاء الحق کا فضائی حادثہ پیش آیا تو اس پر جس ردعمل کا محترمہ بے نظیر بھٹو نے اظہار کیا۔۔۔ وہ ایک برد بار، اسٹیٹسمین ہی کرسکتا ہے کہ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت پر تو مخالفین نے برسرِ عام مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔۔ میں اُن دنوں ایک ہفت روزہ جریدے سے وابستہ تھا۔۔۔ 70کلفٹن گاہے بہ گاہے آنا جانا رہتاتھا۔۔۔ جنرل ضیاء الحق کی موت کی خبر آئی تو اور بہت سے ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ میں بھی70کلفٹن جاپہنچا۔۔۔ چند پر جوش جیالے اس وقت70کلفٹن کے باہر مٹھائیاں تقسیم کررہے تھے، بے نظیر بھٹو کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے بڑی سختی سے انہیں ڈانٹا۔۔۔ جنرل ضیاء الحق کی جگہ قائم مقام صدارت کے عہدہ جلیلہ پر اس وقت کے چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان بیٹھے۔ جو بھٹو خاندان سے انتقام کی حد تک مخالفانہ رویہ رکھتے تھے۔۔۔ 1970کے 18سال بعد ہونے والے اس دوسرے آزادانہ الیکشن میں معروف اصطلاح میں سول، ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ہر ممکن کوشش کی کہ پیپلزپارٹی کو واضح اکثریت نہ ملے۔ اس کیلئے جہاں ایک طرف پی پی مخالف اتحاد تشکیل دیا گیا وہیں سندھ میں دیہی اور شہری تقسیم کی بنیاد رکھنے کیلئے مہاجر قومی موومنٹ کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی۔۔۔ مہاجر قومی موومنٹ کا قیام میں ، مکمل طورپر اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا، یہ ایک متنازعہ سوال ہے کہ بہر حال سندھ کے شہری علاقوں کو جس طرح برسوں بنیادی سہولتوں سے محروم رکھاگیا اس میںمہاجر قومی موومنٹ کا قیام۔۔۔ بہر حال ایک زمینی حقیقت تھی۔اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اور وہ بھی اس لئے کہ اس کا اعتراف اپنی زندگی میں بھی اٹھتے بیٹھتے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل کرتے رہے کہ پی پی کا راستہ روکنے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل میں ان کا ہی بنیادی کردار تھا۔ اس اتحاد کو گو کہ عوام کی بہت بڑی پذیرائی تو نہ مل سکی مگر یہ اتحاد اس حد تک ضرور کامیاب ہوا کہ پی پی اپنی تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ ذرا نومبر1988ء میں ہونے والے انتخابات پر ایک نظر ڈالیں۔۔ پیپلزپارٹی۔۔۔۔۔93 اسلامی جمہوری اتحاد۔۔۔۔55 متحدہ قومی موومنٹ۔۔۔۔13 آزاد۔۔۔۔27 جمعیت علمائے اسلام۔۔۔۔۔07 عوامی نیشنل پارٹی۔۔۔۔02 (جاری) صدرغلام اسحاق خان کی پوری کوشش تھی کہ کسی طور محترمہ بے نظیر بھٹو عالم اسلام کی پہلی وزیراعظم کے عہدے پر نہ فائز ہوسکیں۔۔۔ مگر بہر حال ایک حد تک بیرونی اور دوسرے ملکی مقتدر اداروں کے دباؤ کے سبب صدر غلام اسحاق خان نے پیپلزپارٹی کو اقتدار سونپنے کا کڑوا گھونٹ پیا۔۔۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ صدر تو خیر آئینی طورپر وہ رہیں گے ہی مگر وزارت خارجہ بھی ان کے نامزد صاحبزادہ یعقوب علی خان کو ملے گی۔ ادھر سب سے بڑے صوبے میں الیکشن ہارنے کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے تین دن بعد ہونے والے پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگا کر پالہ مارلیا۔۔۔ صوبہ سرحد اور سندھ میں پیپلزپارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔۔ مگر ایک تو دس سال بعد اقتدار ملنے کے بعد’’جیالوں‘‘ کی بے لگام خواہشیں۔۔۔ پھر سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بھٹو خاندان سے روایتی مخالفت۔۔۔ یوں پیپلزپارٹی کی حکومت گھسٹ گھسٹ کر18ماہ پورے کرسکی۔۔ جس کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت بے نظیر حکومتکو6اگست1990ء کو رخصت کردیا۔۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کو6اگست1990ء میں صدر غلام اسحاق خان نے جس طرح نکالا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ اسٹیبلشمنٹ آئندہ ہونے والے انتخابات میں کسی صورت پیپلزپارٹی کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔۔۔ الیکشن90کے حوالے سے ایئرمارشل اصغر خان کیس نے بڑی شہرت پائی اور جو آج بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ایک بدنما داغ رہے گا۔ اس کیس کے حوالے سے بہت کچھ سامنے آگیا ہے اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ صدر غلام اسحاق خان نے براہ راست آرمی چیف کو ہدایت کی کہ وہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ذریعہ پی پی مخالف اتحاد بنائیں اور اس کیلئے بھاری رقوم کا اہتمام کریں۔۔۔ اس سارے گھناؤنے کھیل کے بنیادی کردار سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل اسد درانی نے باقاعدہ حلفیہ بیان میں جو سپریم کورٹ میں داخل کرایاگیا یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے ایک بدنام زمانہ بینکر یونس حبیب کے ذریعہ پی پی مخالف جماعتوں میں حصہ بقدر جثہ رقوم براہ راست تقسیم کروائیں جس میں سرفہرست اس وقت کے اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ محترم میاں نواز شریف بھی شامل تھے ۔25سال سے یہ کیس اعلیٰ عدالت میں زیر سماعت ہے۔۔ مگر آج تک اس کا فیصلہ نہیں آسکا۔۔۔ اگر ایسا ہوجاتا تو آج پاکستانی سیاست ’’کرپشن‘‘ اقربا پروری اور اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے لتھڑی نہ ہوتی۔ اکتوبر1990کے انتخابات اور اس کے نتائج درج ذیل تھے۔ آئی جے آئی۔۔۔۔106 پیپلزپارٹی۔۔۔۔44 ایم کیو ایم۔۔۔15 اے این پی۔۔۔۔6 جے یو آئی۔۔۔۔6 آزاد۔۔۔۔22 میاں نواز شریف وزیراعظم بنے ۔مگر محض دو سال بعد اپریل93میں انہیں صدر غلام اسحاق خان نے کم و بیش انہی الزامات میں برطرف کردیا جو انہوں نے پی پی حکومت کی برطرفی پر محترمہ بے نظیر بھٹو پر لگائے تھے۔ اکتوبر1993ء میں محض تین ماہ بعد پھر انتخابات کرائے جاتے ہیں۔۔۔ صدر غلام اسحاق خان ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے تاریخ دہراتے ہیں اس بار ان کا دست شفقت میاں صاحب کے بجائے بی بی صاحبہ پر ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی کوششوں سے نتائج غیر منقسم آئے ہیں۔ ذرا اس پر بھی نظرڈال لیں۔ پی پی۔۔۔۔86 آئی جے آئی۔۔۔72 اے این پی۔۔۔03 جے یو آئی۔۔۔04 آزاد۔۔۔۔۔15 ہاں اس تاریخی الیکشن میں یہ ضرور ہواہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنا صدر سردار فاروق لغاری لانے میں ضرور کامیاب ہوگئیں۔۔۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کی مضبوط پشت پناہی کے سبب ان کے صدر لغاری ہی ان کیلئے بروٹس ثابت ہوئے۔۔۔ نومبر1996ء میں ان کی حکومت برطرف کردی گئی۔اور صرف تین ماہ بعدفروری 1997میں الیکشن ہوتے ہیں۔ جی ہاں، نو سال میں چار الیکشن۔ اور ملکی تاریخ میں اس الیکشن میں پہلی بار قومی و صوبائی اسمبلی کی پولنگ ایک ہی دن ہوتی ہے۔۔۔ اس وقت تک ہمارے محترم میاں نواز شریف محاورے کی زبان میں’’دے رگڑا‘‘ کھاتے کھاتے ایک پختہ کار سیاستدان بن جاتے ہیں۔۔۔ اور’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو اپنےTRAP میں لاکر یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ محض دو تہائی اکثریت سے ہی ملک میںجمہوری استحکام مستقل بنیادوں پر ملک میں لایاجاسکتا ہے۔۔ سو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے محترم میاں صاحب کو فروری1997ء کے الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل ہوتی ہے۔۔۔ اور پی پی کو تاریخی ناکامی۔ذرا اس پر بھی نظر ڈال لیں۔ مسلم لیگ۔۔۔133 پی پی پی۔۔۔۔18 ایم کیو ایم۔۔۔۔11 اے این پی۔۔۔10 آزاد۔۔۔22 مگر بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف پر بھاری اکثریت بھی بھاری پڑ جاتی ہے۔۔ دو تہائی اکثریت کے زعم میں ان کے سر میں یہ سودا سما جاتا ہے کہ’’ساڈا صدر تے ساڈا جج ‘‘ کے بعد ’’ساڈے جنرل‘‘ کے بغیرمکمل اقتدار کے ثمرات بے مزہ رہتے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں اکتوبر1999ء میںمیاں نواز شریف کی رخصتی اس ملک میں جمہوریت کو اگلی ایک دہائی تک فارغ کردیتی ہے۔(جاری ہے)