برطانیہ نے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے شہریوں کے لئے نئی سفری ہدایات جاری کی ہیں۔ برطانیہ نے اپنے شہریوں کو کہا ہے کہ وہ پاکستان کے خوبصورت سیاحتی مقامات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچین ٹرنر کے مطابق انہوں نے دسمبر 2019ء میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پاکستان میں برطانوی شہریوں کی حفاظت اور عمومی نقل و حرکت کے حوالے سے معاملات کا تجزیہ کیا۔ برطانیہ نے امن و امان کی صورت حال میں بہتری کے لئے حکومت پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔جواب میں پاکستان نے برطانوی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام کے مثبت اثرات پاکستان اور برطانیہ کے حکومتی اور عوامی تعلقات پر خوشگوار طور پر مرتب ہوں گے۔ افغان جنگ سے قبل برطانوی‘ امریکی ‘ کینیڈین‘ چینی‘ جرمن‘ آسٹریلین اور یورپ کے چھوٹے ملکوں سے ہر سال ہزاروں سیاح پاکستان آتے۔ پاکستان میں قدرتی حسن‘ تاریخی مقامات اور ثقافتی ورثہ ان کی توجہ کا مرکز ہوتا۔ یہ سیاح ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک کسی خطرے اور عدم تحفظ کے احساس کے بنا سفر کرتے۔ مقامی باشندوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتے اور اپنے ملک واپس جا کر پاکستان کی جغرافیائی خوبصورتی‘ حسین وادیوں‘ ثقافتی ورثے اور مہمان نواز لوگوں کی تعریف کرتے۔ افغان جہاد نے پاکستان میں اسلحہ اور منشیات کو عام کیا۔ ان دونوں چیزوں نے معاشرے میں جرائم پسندی کو ابھارا اور پرامن ملک کئی طرح کے خطرات کا شکار ہوتا گیا۔ ریاستی ادارے کمزور ہوتے گئے اور بیرونی اسلحہ سے لیس غیر ریاستی گروہ پاکستان میں سیاحت کی صنعت کے لئے خطرہ بن گئے۔ دہشت گردی اور حکومتی عدم توجہی نے غیر ملکیوں کے لئے پاکستان کی اجلی تصویر دھندلی کر دی۔ دہشت گردی نے گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پاکستان میں سیاحت کے شعبے کو بری طرح متاثر کیا۔ سب سے بھیانک واقعہ 22جون 2013ء کو پیش آیا جب 16دہشت گرد گلگت سکائوٹس کی وردی میں ملبوس ہو کر گلگت بلتستان میں ایک بلند چوٹی کے بیس کیمپ پر مقیم 10غیر ملکی کلائمبرز اور ان کے مقامی گائیڈز کو قتل کر کے فرار ہو گئے۔ مرنے والوں میں یوکرائن‘ چین‘ سلاواکیہ‘ لیتھوینیا اور نیپال کے سیاح شامل تھے۔ اس کے بعد کئی مقامات پر سیاحوں پر حملے ہوئے۔ اس صورت حال میں اکثر ممالک نے اپنے شہریوں کے پاکستان میں سفر کو محفوظ بنانے کے لئے ٹریول ایڈوائزری جاری کرنا شروع کر دی۔2016ء میں برطانیہ کے محکمہ خارجہ نے وفاقی انتظام والے فاٹا کے علاقوں‘ ضلع کوہاٹ‘ لکی‘ لوئر دیر‘ پشاور شہر‘ شمالی اور مغربی بلوچستان اور اسلام آباد سے گلگت جانے والی قراقرم ہائی وے پر اپنے شہریوں کو سفر کرنے سے روک دیا۔ جن مزید علاقوں کو برطانوی شہریوں کے لئے نوگوایریا بنایا گیا ان میں وادی کالاش‘ بمبورٹ اور چترال کا ضلع آراندو تھا۔ کوئٹہ‘ نوابشاہ جیسے اضلاع بھی غیر محفوظ قرار پائے۔ یہ سب وہ علاقے ہیں جہاں سیاحوں کے لئے سب سے زیادہ پرکشش مقامات اور تہوار ہیں۔برطانیہ سے شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ شہزادی کیٹ میڈلٹن نے دو ماہ قبل پاکستان کا دورہ کیا۔ شاہی جوڑا تاریخی ‘ ثقافتی اور جغرافیائی اہمیت کے حامل بہت سے خوبصورت مقامات پر پہنچا۔ برطانوی حکام جن علاقوں میں اپنے شہریوں کو جانے سے روکتے رہے تھے شاہی جوڑا وہاں گیا اور مقامی آبادی سے ان کے علاقے ‘ثقافت اور تاریخ سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ ان کے پانچ روزہ دورے کے اختتام پر عالمی ذرائع ابلاغ نے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری‘ مقامی باشندوں کی مہمان نوازی اور سیاحتی مقامات کے حوالے سے رپورٹس شائع کرنا شروع کیں۔ شہزادی کیٹ میڈلٹن کے لباس‘ پاکستانی کھانوں اور لوگوں کی تعریف کے بعدایک مثبت لہر چلتی محسوس ہوئی۔ بعدازاں سیاحتی حوالے سے موزوں ممالک کی درجہ بندی کرنے والے اداروں نے اپنی تازہ رپورٹس میں پاکستان کو سیاحت کے لئے موزوں ترین اور محفوظ ملک قرار دیا۔ اس دوران پاکستان میں معاشی مشکلات اور فنڈز کی کمی کے باوجود پی ٹی آئی حکومت نے سیاحتی مقامات پر ضروری سہولیات کی فراہمی اور نئے سیاحتی مراکز کی تلاش کے لئے قابل ذکر محنت کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے سے قبل بھی سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کے آرزو مند تھے۔ حکومت کی مسلسل کاوشوں ‘ بیرونی ممالک سے ولاگرز‘ بائیکرز اور ہائیکرز کو مدعو کر کے پاکستان کا دلکش اور پرامن چہرہ دنیا کے سامنے لایا جا رہا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو سیاحت کے لئے بہترین ملک قرار دینے اور ٹریول ایڈوائزری ختم کرنے کے بعد بڑی تعدادمیں سیاح پاکستان کا رخ کریں گے اور ان کی آمد سے ناصرف سیاحت کا شعبہ ترقی کرے گا بلکہ دوسرے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی بڑھتی ہوئی دکھائی دے گی۔ برطانیہ کی جاری کردہ ترمیمی ٹریول ایڈوائزری کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان میں سرمایہ کاری ، معیشت و مالیاتی شعبوں کو ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف‘ ایشین ڈویلپمنٹ اور ورلڈ بینک کے وفود سے لے کر بین الاقوامی سرمایہ کار گروپ پاکستان کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے پاکستانی حکام سے دبئی میں ملاقات پر اصرار کیا کرتے تھے۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو چکی ہے برطانیہ کی جانب سے سفری پابندیاں ختم ہونے سے معاشی اورسرمایہ کاری سرگرمیاں بھی بحال ہونے میں دیر نہیں ہو گی۔