ایک انٹرویو کنڈکٹ کیاگیا۔ اس میں فوج کے ریٹائرڈ جنرلز بھی شامل تھے، دانشور بھی، میڈیا پنڈت بھی اور سوچنے والے سیاستدان بھی۔ کچھ دانش ور ٹائپ بیوروکریٹ بھی شامل تھے۔ پوچھا گیا ملکی سلامتی کا جدید تصور کیا ہے؟ حیرت انگیز طور پر صرف پانچ فیصد درست کے قریب جواب دے سکے۔ تو ضرورت ہے سلامتی کے بدلتے ہوئے تصورات پر آگاہی کی۔ مگر یہ کون کرے گا؟ جس کو پوچھو وہ کہتا ہے ’’اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات … اس بنا پر فکر عالم کہ کیا کریں؟ … ان ہی صفحات پر بات ہوتی رہتی ہے ’’ہائبرڈ وار‘‘ پر۔ مگر اس وقت پاکستان پر جو چاروں جانب سے دیکھے، اَن دیکھے حملے ہورہے ہیں ایسے میں شدید ضرورت ہے کہ بات ہو … ففتھ جنریشن وار کی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ اس پر بات کرتے رہتے ہیں مگر اس پر شعور اور آگاہی کی عوامی سطح پر اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اس وقت پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے جس جنگ اور دشمن کا سامنا ہے وہ نظر آتا ہے اور نہیں بھی۔ محاذ جنگ اب طے نہیں ہے۔ اب لڑائی صرف اسلحے اور فوج کی نہیں … صرف ایٹمی طاقت ہونا بھی کافی نہیں۔ اب ضرورت ہے ان سب رخنوں کو بند کرنے کی … جس سے دشمن غیر مادی انداز میں سرایت کرتا ہوا داخل ہورہا ہے۔ کیونکر اور کیسے؟ تھوڑی سی اکیڈیمک بات پھر آگے بڑھتے ہیں۔ ایک جنگ ہوتی تھی جو دو ملکوں کے درمیان لڑی جاتی تھی علاقوں کے لیے۔ دشمن کی زمین اور وسائل کے لیے۔ وقت بدلا، دشمن کو کمزور کرنے کے لیے نان سٹیٹ ایکٹرز کی تخلیق ہوئی۔ ان کے زریعے ایک بیانیہ بطور انجکشن قوم کے جسم میں ڈالا جاتا ہے۔ جہاں نظریاتی رشتہ کمزور ہوتا ہے۔وہ مذہب بھی ہوسکتا ہے۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کی دہشت گردی اور بیانیہ وہی جو دلوں کو اپیل کرے۔ مگر اب یہ بات ذرا پرانی ہے۔ نئی بات کیا ہے؟ ففتھ جنریشن وار۔ یہ کیا ہے؟ یہ ماڈرن وار ہے۔ یہ دشمن قوم کے ذہنوں میں لڑی جاتی ہے۔ فیک نیوز کے ذریعے، سوشل میڈیا پر،منی لانڈرنگ سے ،سائبر اٹیک بھی ہے۔ جس ملک کو اٹیک کرنا ہو اس کی تاریخ کا ، مذہب کا، معاشرتی مسائل کا،میڈیائی سوراخوں کا گہرا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس کے سماجی ڈھانچے میں دراڑیں تلاش کی جاتی ہیں۔ اس کی یک جہتی کو مزید ڈینٹ ڈالنے کے لیے فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے۔ علاقائی محرومیوں کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ اس کی نوجوان نسل کے اندر اپنے نمائندے تلاش کیے جاتے ہیں۔ ان سے مالی ہمدری جتا کر دوست کا روپ ھارا جاتا ہے۔ رائے عامہ کے معماروں سے قربت پیدا کی جاتی ہے۔ آزادی اظہار کو بطور Tool استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن ملک کے باہر بیٹھ کر اس کے اندر کے لیے نئے نعرے اور ون لائنر ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ اس سے کیا ہوتا ہے؟ ریاست کے وجود پر شکوک وشہبات جنم لیتے ہیں؟ اداروں پر سوال اٹھائے جاتے ہیں،ایسا ایسا سوال ایجاد کیا جاتا ہے کہ ادراک سے خون رسنے لگتا ہے۔ تیزابی سوال مسائل میں لپیٹ کر سوشل میڈیا پر پھینکے جاتے ہیں۔ پاکستان اس وقت ایسی ہی جنگ کی زد میں ہے۔ ہم بھارت کی محبت کا نشانہ ہیں یعنی نفرت کا۔ اس نے کشمیر پر ہمارے دیرینہ موقف کے جواب میں ہم پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ غیر اعلانیہ جنگ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں ’’دشمن کے عزائم کی خبر ہونے سے آپ آدھی جنگ جیت جاتے ہیں۔‘‘ ہمارے دشمن بہت سے ہیں۔ خطے میں بھی، گلوب میں بھی۔د شمن نما دوست بھی اور دوست نما دشمن بھی۔ مگر یہ کہانی پھر سہی۔ اس وقت صرف اس جنگ پر بات جو ہمارے اور بھارت کے اجیت دوول اینڈ کو کے درمیان جاری ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک اورون بیلٹ روڈ منصوبہ بھارت کے دل میں خار بن کر کھٹکتا ہے۔ اس کے مقابلے پر بھارت اور ایران نے چاہ بہار کی بنیاد رکھی۔ بھارت کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کھڑے تھے۔ ایران کو بات کی سمجھ آگئی اور وہ چین کے ساتھ چل نکلا۔ بھارت چاہ بہار سے باہر ہوگیا۔ بھارت کو چاہ بہار سے بھی زیادہ محبت اس کے قریب بلوچستان سے تھی۔ بھارت اور اس کے دوست سی پیک پر دن رات کام کررہے ہیں۔ چین سے بھارت نے حال ہی میں مار کھائی ہے۔ ٹرمپ کو پتہ ہے کہ چین معاشی منڈیوں میں امریکہ کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ ایسے میں سافٹ ٹارگٹ پاکستان ہے کہ وہ سی پیک کو چھوڑدے، نہیں تو یہ منصوبہ ہی رک جائے۔ ایسے میں بھارت کی ایجنسی را اور ان کے سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے ایک ریٹائرڈ میجر کو سوشل میڈیا پر لانچ کیا۔ وہ اپنے ویب چینل کے ذریعے اٹیک کرکے پاکستانی قوم کو،اس کے یقین کو،نظریے کو، اس کے اداروں کو، را کا نمائندہ میجر گورو آریا اس وقت سوشل میڈیا پر بیٹھ کر یہی کر رہا ہے۔ اس کے ویب چینل کا ہر پروگرام بھارت کے ایک ادارے میں بیٹھ کر ڈیزائن ہوتا ہے۔ اس کا Content میٹریل اور ٹارگٹ سائنسی بنیادوں پر طے پاتے ہیں۔ فیک نیوز کے اس دھندے میں اگر پاکستانی میڈیا، سوشل میڈیا اس سے Influence ہو تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ سی پیک کے چیئرمین جنرل عاصم سلیم باجوہ کے خلاف حقائق کو جو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا وہ اسی جنگ کا ہراول دستہ ہے ۔ یہ جنگ مزید آگے بڑھے گی ،ضرورت ہے ایک مسلح جواب کی۔ اسلحہ روایتی نہ ہو بلکہ دشمن کی اوقات اور بساط کو طے کرکے ڈیزائن کیا جائے۔ بھارت بے شمار قومیتوں کا ملک ہے۔ یہاں خط غربت کے بہت نیچے کروڑوں لوگ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں، جھونپڑ پٹی میں رہتے ہیں اور پلاسٹک کے کئی منزلہ گھروں کے باسی ہیں۔ یہاں کی سیاست پر انتہا پسند قابض ہیں جو ضد ہے سیکولرازم کی۔ سیکولرازم کی دم توڑتی لاش کس طرح بھارت ٹکڑوں میں بٹنے جا رہا ہے۔ اس پر ضرورت ہے ایک ریسرچ ورک کی، بیانیے کی اور حکمت عملی کی۔ جارحیت بہترین دفاع ہوتا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر نہ سہی، کہیں اور سہی!