ترکی میں قیام کے دوران قدم قدم پر کوئی نہ کوئی حیرت کدہ میرا منتظر ہوتا تھا، وہاں جگہ جگہ افسوس میں غرق ہونے والے ترکوں کے شاندار ماضی کی نشانیاں دکھائی دیتیں توپ کاپی میوزم سے لے کراستنبول کے گرد کھنچی شہر کی فصیل تک ،انسان مرعوب ہوئے بنا نہیں رہ سکتا لیکن دن بھر کی آوارہ گردی کے بعدمیں جب میری کمر بستر سے لگتی تو خیال آتا کہ کاش سلطنت عثمانیہ ماضی کا کوئی اداس ورق نہ ہوتاتو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ سلطنت عثمانیہ کے عروج وزوال کے اسباب پر بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھی جاچکی ہیں ، فلمیں ڈرامے بن چکے ہیں ، اپنے دور کی سپر پاور کے زوال کے اسباب میںبڑی وجوہات سازشیں ، ناقص معاشی پالیسیاں اورقرض تھا ، اس قرض کے چنگل میں پھنس کرترکوں کاخوددار بھیڑیابے دست و پا ہو گیا اور پھر تین براعظموں تک پھیلی ہوئی عظیم سلطنت سکڑتی سمٹتی تاریخ ہوگئی۔ مجھے استنبول میں گزرے ایام آج بے طرح یاد آرہے ہیں۔ سینتالیس میں بننے والی دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت کا موازنہ نہ چاہتے ہوئے بھی سلطنت عثمانیہ سے کررہا ہوں، سلطنت عثمانیہ کے پاس بھی تین براعظموں کے وسائل تھے ، دولت و ثروت کی بہتات تھی وہ دنیا میں سپرپاور تھی، فرانس کی ملکہ بھی مدد کے لئے مراسلے بھیجتی لیکن پھر نفاق، محلات کی سازشوں ، قرض پر قرض لینے کی عادت نے اس عظیم سلطنت کا خاتمہ کردیا نوبت یہ ہوچکی تھی کہ 1914ء کے آخر تک سلطنت پر چڑھا قرض اسکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے 60فیصد تک جا پہنچاتھا اوراپنا حال بھی یہی ہے قرض پر قرض لئے جارہے ہیںاور نوبت تو یہ ہوگئی ہے کہ یہاںملک پر چڑھے قرض کا حجم جی ڈی پی کے 91فیصد تک جاپہنچا ہے اس وقت ہماری معاشی حالت براہ رارست ہماری سکیورٹی کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہے ، خزانہ خالی ہے ، موٹر وے ، ہوائی اڈے تک گروی ہیں ، مہنگائی جونک بن کر عوام کا لہو چوسے جارہی ہے لے دے کر امید تھی کہ نئی حکومت آئے گی تو یقینی طور پر کچھ نہ کچھ سیاسی استحکام آئے گا ، سیاسی جماعتوں کی سر پھٹول کم ہوگی توخالی خزانے کا کسی کو احساس ہو گا۔ قرض کے اس پہاڑ بارے میں بھی کوئی سوچے گا لیکن ہنوز دلی دور است ۔۔۔دنیا بھر میں انتخابات میں سیاسی درجہ ء حرارت بڑھ جاتا ہے لیکن حکومت سازی کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی اپوزیشن اپنی باری کے انتظار میں مقننہ میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جاتی ہے لیکن یہا ں تو اپوزیشن کی جانب سے چاند ماری کم ہونے کا نام نہیں لے رہی رو زہی کچھ نہ کچھ نیا لچ تلا جا رہا ہوتا ہے اور یہ سب اگر ایک سیاسی جماعت کا دوسری سیاسی جماعت کے لئے ہو تو کسی درجے میں گنجائش نکالی جاسکتی ہے لیکن اسے کیا کہا جائے کہ یہاں سیاسی مخاصمت پر ملک و قوم کو داؤ پر لگایا جارہا ہے اور کسی کو احساس ہی نہیں ۔ سیاسی لڑائی میں سب اصول قاعدے بھلا دیئے گئے ہیں ، اس وقت ہمارے لئے ایک ایک ڈالر ضروری ہے کہ خزانہ خالی ہے اور جس عوام نے خزانہ بھرنا ہے اس کی بس ہوچکی ہے ایسے میںپاکستان آئی ایم ایف سے قرض لینے جاتا ہے اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے مورچہ لگا لیا جاتا ہے نعرے بازی ہوتی ہے اوریہ ساری محنت مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں بلکہ اس وطن عزیز کے خلاف ہورہی ہے جس پر کیا مسلم لیگ اور کیاپیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی سب ہی کا آشیانہ ہے ، یعنی یہ سب کچھ اپنے ہی گھر کے خلاف ہو رہا ہے اگرنہیں تو سیدھا سا سوال ہے کہ آئی ایم ایف سے ٹکا سا جواب ملتا ہے تو نقصان شریفوں کو ہوگا، زرداروں کو یا پھر پاکستان کو ؟ آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے مظاہرے اور چٹھیوں سے چڑھا چاند ابھی ڈھلانہیں تھا کہ اسی ماہ پاکستان تحریک انصاف نے امریکہ میں لابنگ کے لئے دو فرموں کی خدمات بھی حاصل کرلیں ، کہا جارہا ہے کہ امریکی اور وہاں موجود انٹرنیشنل میڈیا میں جگہ حاصل کرنے اور اپنے مدعے کی پذیرائی کے لئے ان فرموں سے استفادہ کیاجائے گا ،پی ٹی آئی امریکا کے رہنما رعاطف خان کے مطابق ان فرموں کی خدمات تین ماہ کے لئے لی گئی ہیں جبکہ ایک امریکی اخبار ’’امریکا ڈیلی پوسٹ ‘‘ کی رپورٹرتھریسا ڈیوڈ سن کی رپورٹ کے مطابق یہ معاہدہ دو ملین ڈالر میں کیا گیا ہے اور یہ ساری رقم ساجد برکی اور عاطف خان نے عطیہ کی ہے ،اب ظاہر ہے ان فرموں سے امریکہ او ر انٹرنیشنل میڈیا میں ’’نک دا کوکا‘‘ کا انگریزی ورژن تو لکھوانا نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے مظاہرے اور لکھے گئے خط کے حوالے سے یہی اندازہ ہے کہ مقصد پاکستان پر دباؤ بڑھوانا اوراس کی کی مشکلات میں اضافہ کرکے حکومت کو ناکام کروانا ہے ،اس کو یوں سمجھ لیںکہ کھیلنے نہیں دو گے تو کھیلنے بھی نہیں دیں گے ، مجھے حیرت ہے کہ تحریک انصاف کے وہ سینئر سمجھ دار لوگ کہاں ہیں ،ان نونہلان سیاست کو کوئی سمجھانے والا نہیں کہ یہ کیا کرنے جارہے ہو ؟سیاسی اختلاف کو اتنا تو نہ بڑھایا جائے اس کی قیمت ملک کو ادا کرنے پڑی ،کیوں نہیں سوچاجاتا کہ یہ ملک رہے گا تو سیاست ہوگی سیاست ہوگی تو حکومت بھی ہوگی اس بار نہ سہی اگلی بار سہی، عمران خان نے شیروانی پہننے کے لئے دو دہائیوں سے زائد انتظا ر کیا تھا ناں ۔ چلیں اب مشکل ہے انتظار نہیں ہوتا تو ٹھیک ہے ملک میں سیاسی جدوجہد کریں تحریک چلائیں ، پارلیمان میں اچھی خاصی تعداد موجود ہے وہ اپنا کردار ادا کریں لیکن خداراملک کوتو چلنے دیں ملک ہے تو سب کچھ ہے خدانخواستہ ملک نہ ہوا تو کون سا تخت اور کون ساتاج ! ٭٭٭٭٭