ہوسکتا ہے کہ آپ جان کر حیران ہوں کہ حکومت ِ امریکہ کی کل ذاتی جائیداد وائٹ ہاؤس اور نائب امریکی صدر کا گھر ہیں۔ اِ ن دو جائیدادوں کے علاوہ امریکی حکومت کا کوئی اثاثہ نہیں۔ حتی کہ ہر امریکی سٹیٹ کا گورنر ہاؤس بھی وفاقی حکومت کی بجائے مقامی حکومت یا لوکل گورنمنٹ کی ملکیت ہے۔ ہر امریکی صدر کے اثاثہ جات یا کاروباربھی امریکہ میں ہی پائے جاتے ہیں۔ امریکہ تو درکنار پنڈت جواہر لعل نہرو سے لے کر نریندر مودی تک کسی بھی بھارتی وزیر اعظم یا صدر کا بھارت سے باہرکسی بھی ملک میں ایک مرلہ جائیداد یا ذاتی بینک اکاؤنٹ موجود نہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی امریکی صدر یا بھارتی وزیراعظم یا صدر منی لانڈرنگ میں ملوث نہیں پایا گیااور نہ اْن پہ کبھی ایسا کیس بنایا گیا۔ لیکن وطن ِ عزیز میں ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ہمارے ہاں آئینی اداروں کے سربراہان سے لے کر وزیراعظم اور صدر تک سبھی عہدے یا اقتدار سے الگ ہونے کے بعد اپنی اولاداور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ بیرون ِ ملک منتقل ہو جاتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں محض عہدے اور اقتدار کے مزے لوٹنے تک محدود تھے۔ حال ہی میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے گھر فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن نے اچانک چھاپہ مارا اور پورے گھر کی تلاشی لی۔ امریکی صدر پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ کچھ حکومتی کاغذات کو اپنے ہمراہ گھر لے گئے تھے اور قانون کے مطابق وہ یہ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ سرکاری کاغذات امریکہ سرکار کی ملکیت تھے۔ اْس چھاپے کو عالمی میڈیا نے بھرپور کوریج دی مگر وائٹ ہاؤس یا امریکی صدر کی جانب سے ایک بھی ایسا بیان جاری نہیں کیا گیا جس میں کسی ادارے یا فرد پر الزام لگایا گیا ہو۔ لیکن وطن ِ عزیز میں ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے۔ اِسی طرح سابق امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ پہ جو فردِ جرم عائد کی گئی ہے اْن تمام الزامات میں دو الزام یہ بھی لگائے گئے ہیں کہ آپ نے ’حلف کے دوران ادا کئے گئے الفاظ کی خلاف ورزی کی ہے‘ اور آپ نے ’جھوٹ بولا ہے‘۔ ایک سابق امریکی صدر بل ِ کلنٹن نے مواخذہ کے بعد مونیکا نامی خاتون سے اپنے تعلقات کا اعتراف ہی نہیں کیا تھابلکہ اْنہوں نے قوم سے جھوٹ بولنے پر معافی مانگی اور عہدے سے استعفیٰ دے دیاوگرنہ شاید اْنہیں عہدے سے برطرف کردیا جاتا۔ دوسرے لفظوں میں طاقتور ترین قوم کا طاقتور ترین صدر اِن الزامات پہ عہدے سے برطرف بھی کیا جاسکتا ہے اور اْسے قوم سے معافی بھی مانگنا پڑتی ہے۔ لیکن وطن ِ عزیز میں ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے۔حال ہی میں عالمی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ ایک تصویر وائر ل ہوئی جس میں امریکی صدر جوبائیڈن گھٹنے کے بل ایک معصوم سی چھوٹی بچی سے معافی کا طلبگار دکھایا گیا ہے۔ کہا جارہا تھا کہ وہ بچی سابق امریکی شہری جارج فلائیڈ کی بیٹی تھی جنہیں ایک امریکی پولیس اہلکار نے تشدد کرکے ہلاک کردیا گیا۔اگرچہ اِس تصویر کو سینیٹر ڈینو ملائی نے اپنے ٹوئیٹر پہ ’امریکی صدر کی فلائیڈ کی بیٹی سے معافی‘ کے کیپشن کے ساتھ شیئر کیا مگر رائیٹرز کی ایک خبر کے مطابق اِس تصویر کوغلط انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ کیونکہ اِس تصویر میں تب امریکی صدارت کے اْمیدوار جو بائیڈن دراصل الیکشن کیمپئن کے دوران گھٹنے کے بل کسی بچی سے پیار سے بات کررہے تھے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ امریکی صدر نے جارج فلائیڈ کی چھ سالہ بیٹی گیانا فلائیڈکے نام ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میںمعذرت خواہانہ لہجے میں کہا کہ وہ جانتے ہیں وہ اپنے بابا کے کندھوں پہ سواری کو مِس کرتی ہوگی لیکن وہ بہادر لڑکی ہے اور اْس کے بابا اْسے اْوپر سے دیکھ رہے ہیں۔ بعد ازاں جارج فلائیڈ کی فیملی کو ستائس ملین ڈالرز کا ہرجانہ ادا کیا گیا۔ لیکن وطن ِ عزیز میں ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے۔ دورانِ الیکشن کیمپئن امریکی صدارتی اْمیدوار عام شہری کی طرح امریکی شہریوں سے ملتا ہے، اپنی کیمپئن کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے دعوؤں پہ قائل کرتا ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد اْسے فقید المثال پروٹوکول دیا جاتا ہے اور امریکی عوام اْس پر خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے صدر کو دل سے چاہتے ہیں کیونکہ وہ صدر امریکی عوام کے ہر بنیادی حقوق کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے۔ یقینا یہی وجہ ہے کہ آدھی سے زائد امریکی عوام کو اِس بات سے غرض ہی نہیں ہوتا کہ اْن کی حکومت یا اْن کا صدر کیا کررہا ہے بلکہ سبھی امریکی عوام کو یقین ہوتا ہے کہ اْن کی حکومت اور اْن کا صدر جو بھی کررہا ہے وہ امریکہ اور امریکی عوام کے مفادات کے لئے کررہا ہے۔ لیکن وطن ِ عزیز میں ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے۔پھر ہم کیا دعویٰ کرسکتے ہیں؟ ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم، صدر اورآئنی اداروں کے سربراہان، وزاء ، مشیران اور اْن کے نجی سیکرٹریز، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، ضلعی پولیس افسران، اسسٹنٹ کمشنرز،ضلعی ڈپٹی کمشنرز،کمشنرز، سیکرٹریز، ایڈیشنل سیکرٹریز، چیف سیکرٹریز، ڈپٹی انسپکٹرز جنرلز، ایڈیشنل انسپکٹرز جنرلز، آئی جیزاور دیگر حکومتی افسران کے پاس اعلیٰ گاڑیاں، مفت پٹرول، مفت بجلی،گھروں اور گاڑیوں کی مرمت و بحالی کے لئے مفت فنڈز اور لامحدود اختیارات ہیں۔ ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہمارے ایس ایچ اوز سے لے کر پٹواری تک کے پاس ایسے لامحدود اختیارات ہیں کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے اور جس کی چاہے اْس کی عزت و پگڑی کی دھجیاں بکھیر سکتا ہے اور کسی بھی امریکی عہدے دار کو یا امریکی سینیٹر تک کو یہ اختیارات میسر نہیں ہیں۔ ہم یہ بھی دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کسی شہری کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی سرکاری افسر کو قانون کے مطابق کام کرنے کے متعلق کہنے کی ہمت تک کرسکے۔ کسی عام شہری میں یہ جرات نہیں کہ وہ اْٹھ کر واپڈا والوں سے یہ پوچھ سکے کہ وہ کس قانون کے تحت سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈال کر اْن کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے اور خود مفت بجلی استعمال کررہے ہیں۔ اِس حوالے سے امریکہ سمیت سبھی ترقی یافتہ ممالک پاکستانی سرکار سے شاید سینکڑوں سال پیچھے ہیں کیونکہ امریکہ میں وزیر سے لے کر سرکاری ملازم تک سبھی عوام کی خدمت میں عظمت تلاش کرتے ہیں اور ہمارے ہاں ایک ہی ملک میں کئی طبقات اور ہر طبقے کی الگ دنیا ہے اور کسی عام پاکستانی ’اچھوت‘ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا حق مانگنا تو درکنار بلکہ ’اعلیٰ طبقات‘ کی دنیاؤں میں بلااجازت گھسنے کی جرات تک کرسکے۔