گزشتہ دو کالم کراچی کی حالت زار پر لکھے۔ تجزیہ تبصرہ تو نہیں تھا،بس غم و غصہ تھا، جو ایک نثری نوحے کی شکل اختیار کر گیا، مجھے کسی قاری نے ای میل بھی کی۔ آپ نے کالم میں صرف اپنے دکھ اور غصے کا اظہار کیا ہے‘ کوئی تجاویز بھی تو دیں۔ بات یہ ہے کہ جو کچھ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے ساتھ ہوتے ہوئے، ہم نے برسوں دیکھا اور جس تباہی کو دیکھتے ہوئے ،ہم سکولوں سے کالجوں‘ یونیورسٹیوں‘ پھر عملی زندگی کے دشت کی طرف آئے اور آج یہ وقت آ گیا ہے، تو اسے دیکھتے دیکھتے ایک نسل جوان ہوئی اور پھر اس کی اولادیں بھی اب جوان ہورہی ہیں، تو اتنا دکھ اور غم و غصہ تو دل میں اترتا ہے اور میرے اندر تو دکھ کا یہ دریا اترنے کا نام نہیں رہا۔ کسی اور موضوع پر لکھنے کو میرا دل نہیں چاہ رہا۔ تاریخ کے اس موڑ پر اگر ہم نے اپنے ملک کے سب سے بڑے شہر کی تباہی اور بربادی کو بطور لکھاری اور تجزیہ نگارکے اگر نظر انداز کردیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ تباہ ہوتا ہوا کراچی‘ اگر نہ بچایا گیا۔ اگر اس طرف توجہ مبذول نہ رکھی گئی، تو تباہی کا ریلا کراچی سے نکل کر پاکستان بھر کے چھوٹے بڑے شہروں تک پھیل جائے گا۔ اگرچہ صورت حال اب بھی کہیں پر آئیڈیل نہیں ہے لیکن کراچی تو دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے۔ ملک کے لاکھوں غریبوں کا پیٹ پالتا ہے اور اس کے صدقے میں اللہ نے کراچی کو ایدھی‘ چھیپا‘ الخدمت اور جے ڈی سی کے فرشتہ صفت سوشل ورکر بھی عطا کئے ہیں۔ ایک طرف یہ سیاست دانوں اور اہل اقتدار کا ستایا ہوا کراچی ہے، تو دوسری طرف یہ ایدھی اور چھیپا کا کراچی ہے۔ دونوں انتہائوں میں تضاد کی ایک پوری خلیج حائل ہے۔ یااللہ تیرے رنگ ہیں کہ ایک طرف ہوس کار‘ لالچی‘ قبضہ گروپ اور مافیاز‘ سیاستدانوں کے روپ میں قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ ڈوبتے‘ مرتے‘ کڑھتے ہوئے کراچی والوں کی صدائیں ان کی پتھر سماعتوں تک نہیں پہنچتیں۔ خلق خدا کے دکھ ان کے سنگ دل سینوں کو نہیں پگھلاتے۔ تو انتہا کی دوسری طرف کھڑے انسانوں کے روپ میں فرشتے‘ ایثار کیش‘ روادار‘ قربانی دینے والے‘ مدد کے لیے آگے بڑھنے والے‘ خود گندے پانیوں میں اتر کر کراچی والوں کو بچانے والے‘ ان خطرناک جگہوں تک ریسکیو‘ سروس لے کرجانے والے جہاں پہنچنا زندگی کو موت کے منہ میں دینے کے مترادف ہو۔ لاوارث لاشوں کو دفنانے والے‘ ایمبولینسوں میں ہسپتال بروقت پہنچانے والے‘ پوری دنیا نے دیکھا کہ جب کراچی میں سیوریج کا غلاظت بھرا پانی بارش کے پانیوں کے ساتھ مل کر شہر پر اور شہر والوں پر قیامت ڈھا رہا تھا، تو الخدمت کے‘ ایدھی کے‘ چھیپا کے‘ جے ڈی سی کے اور کئی دوسری ویلفیئر تنظیموں کے ایثار کیش رضا کار اپنی جانوں پر کھیل کر شہریوں کو تکالیف میں راحت پہنچا رہے تھے۔ خود کھانا کھانے کا وقت انہیں شاید نہ ملا ہو مگر وہ پانیوں میں پھنسے لوگوں تک کھانا پہنچا رہے تھے۔ واہ کراچی! یہ بھی تیرا ہی اعزاز ہے کہ بھنور میں کشتیوں جیسے رضاکار تجھے میسر آئے۔ دھوپ میں سائبان جیسے اور یخ بستہ موسموں میں گرمائش دیتی دھوپ جیسے لوگ تیرے زخم پر مرہم رکھتے رہے۔ یہی ویلفیئر تنظیمیں اور رضاکار کراچی کے اصل مسیحا ثابت ہوئے۔ انہوں نے کراچی والوں کو تکلیف سے نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ جہاں حکومت اپنے پور انفراسٹرکچر سمیت ڈھیر ہو گئی ہو، وہاں یہ ویلفیئر تنظیمیں‘ یہ رضاکار اپنے کم وسائل مگر انسانیت کے بے بہا جذبے کے ساتھ میدان میں موجود رہے۔ ہمارا انہیں سلام۔ پوری قوم کا سلام! کالم لکھتے لکھتے خیال آیا کہ 6 ستمبر کو یہ کالم چھپے گا۔ قوم یوم دفاع منا رہی ہوگی۔ 55 برس پیشت۔ ہماری جری اور بہادر افواج نے پاکستان کی سرحدوں کو میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو شکست فاش دی تھی۔ سرحدوں کی حفاظت کے لیے پاکستان کی افواج آج بھی اسی جذبے سے لبریز ہیں۔ وطن پر جاں نچھاور کرنے والے وطن کے تمام بیٹوں کو سلام۔ روایتی یوم دفاع تو وطن کے بیرونی دشمنوں کے خلاف منایا جاتا ہے۔ ہر سال وہی روایتی باتیں‘ تعزیریں اور خبروں کی سرخیاں‘ وہی روایتی عہد دہرائے جاتے ہیں۔ دہائیوں سے تباہ و برباد ہوتے کراچی کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمیں ان لوگوں کو بھی پہچاننا چاہیے جو اپنے وطن اور اپنے وطن کے لوگوں سے بے وفاء کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اہل اختیار اور اہل اقتدار کے روپ میں وہ تمام بہروپیے جو عوام کا حق غصب کرتے ہیں، جن کی بے حسی اور ہوس زر‘ عام آدمی کو عزت اور آسودگی سے جینے نہیں دیتی۔ ان کے اپنے بچے محفوظ قلعوں میں ہوتے‘ کبھی بیرون ملک کی محفوظ پناہ گاہوں میں سانس لیتے ہیں اور عام کراچی والے کا بچہ بارش کے پانی میں کرنٹ لگ کر مر جاتا ہے۔ ایسا تمام طفیلئے اس ملک کے اس قوم کے دشمن ہیں۔ کراچی والوں تمہیں سوچنا ہوگا کہ ان سے اپنا دفاع کیسے کرنا ہے۔ عربی اور اردو کا لفظ دفاع‘ زیر‘ زبر، پیش کے حرف سے مختلف معنی رکھتا ہے۔ دَفاع کا مطلب ہے۔ زبردست سیلاب۔ دِفاع کا مطلب ہے دشمن سے بچائو اور حفاظت۔ دلچسپ اور حیرت انگیز بات نہیں کہ زیر زبر‘ پیش کے ساتھ تینوں ہی معنی کراچی کی اس موجودہ صورت حال پر منطبق کرتے ہیں۔ کراچی والے سوچیں کہ جن ہوس کاروں کی بے حسی نے شہر کو اس حال تک پہنچایا ہے، ان سے اپنا دفاع اب کیسے کرنا ہے۔ کیسے دفاعی پوزیشن سنبھالیں‘ اپنے بچوں کو ڈوبتے اور مرنے سے کیسے بچائیں۔ اس یوم دفاع پر بھی سوچیں۔ دشمن صرف بیرونی نہیں ہوتے۔ وہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں، جن کے بارے میں باکمال شاعر منیر نیازی نے کہا تھا: میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا