ایسا میرے ساتھ پہلے بھی ہوا تھا۔ چند سال پہلے اگست ہی کا مہینہ تھا اور میں بہت سی کتابوں کے ساتھ ٹیگور کو بھی پڑھ رہی تھی۔ ٹیگور کے افسانوں اور گیتا نجلی کی نظروں نے گرفت میں لیا تو اس پر کالم لکھنے کا ارادہ کیا۔ عملی صحافت کا تربیت یافتہ کالم نگار‘ کالم کا موضوع چنتے ہوئے ہمیشہ اس کی ریلیوینسی‘ حالات حاضرہ سے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے نہیں تو کوئی مطابقت کرنٹ افیئرز سے ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ اس لیے کہ صحافت ہے ہی کرنٹ افیئرز کا کام۔ ٹیگور کی سوانح عمری پڑھتے ہوئے پتہ چلا کہ 7اگست ٹیگور کا یوم وفات ہے اور حیرت انگیز بات کہ جس روز میرا کالم چھپنا تھا وہ تاریخ ہی 7 اگست کی تھی۔ایک ڈیڑھ ماہ پہلے بالزاک کے دو ناولوں کے تراجم بھی رئوف کلاسرا صاحب کی طرف سے موصول ہوئے۔ کتابیں خریدنا اگرچہ بہت خوشی دیتا ہے لیکن سچی بات ہے کچھ شخصیات کی طرف سے کتاب ملنے کی بھی الگ ہی خوشی ہوتی ہے۔ میں عادتاً کئی کتابیں ایک ساتھ پڑھتی ہوں۔ سو کچھ عرصہ سے کتابوں کے اس قافلے میں بالزاک بھی شامل تھے۔ انہی دنوں سوچا کہ فرانس کے اس حیرت انگیز تخلیق کار پر کچھ لکھا جائے۔ بالزاک کے بارے میں انٹرنیٹ پر سرچ کی تو پتہ چلا کہ 18 اگست کو اس نابغہ روزگار کو جسمانی طور پر دنیا چھوڑے پورے 170 برس ہو جائیں گے اور حسن اتفاق آج میں بالزاک پر لکھ رہی ہوں تو تاریخ 18 اگست ہے، پھر کیوں نہ لکھاری کو یاد کیا جائے۔ جس کے اسلوب نے پوری دنیا کے ادب کے انداز اور ادیبوں کے طرز خیال کو بدلا۔ ادب میں حقیقت پسندی یعنی Realism کی تحریک کا بانی ہنری ڈی بالزاک ہے۔ بالزاک سے میرا پہلا تعارف کئی برس پیشتر ڈاکٹر حمیرا اشفاق کی وساطت سے ہوا۔ ان دنوں ایک تحقیقی مقالے پر کام کر رہی تھی۔ موضوع تھا فرانسیسی ادب کے اردو ادب پر اثرات۔ تاریک راہوں کے مسافر سب سے پہلے میں نے حمیرا سے لے کر پڑھی۔ کتاب پر مترجم کا نام رئوف کلاسرا تحریر تھا۔ یہی میرا آج کے ممتاز صحافی رئوف کلاسرا سے پہلا تعارف تھا۔ انہی دنوں اناطول فرانس کا عالمی شہرت یافتہ ناول تائیس بھی پڑھا۔ اس پرانا طول فرانس کو نوبل پرائز دیا گیا تھا۔ واہ کیا ناول ہے۔ ۔ بالزاک سے عشق کی وجہ ان کے نعیم بھائی ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں ہے کہ کیسے رئوف کلاسرا اپنے بھائی کی محبت میں بالزاک کی تحریروں کا پورا سیٹ لندن سے لیہ لے کر آتے ہیں۔ بالزاک سے محبت کرنے والے نعیم بھائی وفات پا جاتے ہیں تو انہیں سپرد خاک کرتے ہوئے رئوف کلاسرا یہ سوچتے ہیں کہ کاش بالزاک کا ’’ہیومن کامیڈی‘‘ کا پورا سیٹ نعیم بھائی کے ساتھ قبر میں رکھوا دیں۔ بالزاک کے ناول کے ساتھ کتاب کا پیش لفظ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہی سادہ اور بے ساختہ انداز میں لکھنا جیسے کوئی آپ کے سامنے بیٹھا باتیں کررہا ہو۔ بالزاک ایک حیرت انگیز تخلیق کار تھا۔ بطور لکھاری اتنا Prolific کہ اکیاون برس کی عمر میں وفات پائی تو مکمل ہو چکے ناولوں کی تعداد 91 تھی جبکہ نامکمل ناولوں اور کہانیوں کی تعداد 46 تھی۔ مختلف ناولوں کی آپس میں جڑی ہوئی سیریز کو بالزاک نے ہیومن کامیڈی کے نام ایک جگہ اکٹھا کردیا تھا۔ یہ تمام ناول انقلاب فرانس کے بعد کے فرانسیسی معاشرے کے مشاہداتی مگر تخلیقی پوسٹ مارٹم پر مشتمل تھے۔یوں اکیاون برس کی عمر میں جب بالزاک نے دنیا چھوڑی تو کم و بیش ڈیڑھ سو ناول اور کہانیاں پیچھے چھوڑیں اور دو ہزار کردار ان میں تخلیق کئے۔ دس بیس برس اور زندہ رہتا تو کیا کچھ اور لکھ جاتا۔ لیکن یہ ہم انسانوں کے اندازے ہیں۔قدرت نے جو کام اس سے لینا تھا وہ لے لیا۔ بالزاک نے ادب کو فلسفیانہ گنجلکوں‘ حقیقی زندگی سے دور رومانوی اور دیومالائی ماحول سے نکال کر عام آدمی کی زندگی سے جوڑ دیا۔ سو ایک عام آدمی جتنا لالچی‘ حاسد‘ ضدی‘ سازشی‘ پیسے سے محبت کرنے والا ہوسکتا ہے‘ اتنے ہی عام انسانوں جیسے کردار بالزاک نے اپنی تحریروں میں تخلیق کئے۔عام آدمی محبت بھی کرتا ہے اور نفرت بھی۔ اس کے اندر خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی۔ یہی سارے رنگ بالزاک کی تحریوں میں نظر آتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ مادیت پرستی کی دوڑ جو انقلاب فرانس کے بعد شروع ہوئی جس دوڑ میں رشتے ناطے‘ محبت سب پیسے کی محبت کے سامنے بیج دکھائی دیتے ہیں۔ پیسے کی یہ محبت خاندانی نظام پر بھی وار کرتی ہے اور اقدار پر بھی۔ ہوس پرستی کی یہ دوڑ محبت کی شادی کی بجائے کاروباری شادی کے نئے تصور کو سماج میں جنم دیتی ہے۔تاریک راہوں کے مسافر کی یوجین معصوم اور پاکیزہ۔ محبت سے لبریز دل رکھنے والی مگر اپنے ہوس پرست باپ کی ضد کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔محبت اور رشتوں کے مقابل‘ مادیت پرستی اور ہوس کی جیت نے اس وقت فرانس کے سماج میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع کردیا تھا اور آج ہوس اور مادیت پسندی کا رجحان پور ی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ بالزاک کی تحریروں میں ہم اپنے سماج کا شکستہ چہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہی تو بڑے تخلیق کار کی خوبی ہے کہ وہ آنے والے کئی زمانوں کے لیے لکھتا ہے۔ تاریک راہوں کے مسافر کے کردار ہمیں اپنے معاشرے میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ناول بالزاک کے قلم کے شہکار یوجین گرینڈ کا اردو ترجمہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ ترجمہ کرنے والا بیک وقت قاری بھی ہوتا ہے‘ مترجم بھی ہوتا ہے اور تخلیق کار بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کہانی کو اپنی زبانی میں نئے سرے سے تخلیق کر رہا ہوتا ہے۔ اگر کہانی مترجم کے اندر نہ ہوتی تو وہ بالزاک کے لکھے ہوئے کرداروں اور کہانی کو کیسے اپنے الفاظ میں ڈھالتا۔بالزاک نے اپنے ناولوں میں فرانسیسی سماج کی ہوس پرستی کو بے نقاب کیا اور پاکستانی صحافت کا بالزاک رئوف کلاسرا اپنی تحریروں میں کرپشن کی کہانیاں بیان کر کے اہل اختیار کی ہوس پرستی کو بے نقاب کررہا ہے۔