بیس سال بعد ایسے فقروں کی گونج دوبارہ سنائی دے رہی ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بنتی جا رہی ہے۔ ملا محمد عمرؒ کی حکومت کے آخری سال میں ایسے لاتعداد بیانات عالمی اور مقامی میڈیا پر نظر آنا شروع ہوئے تھے اور اس کے بعد نیو یارک کا ’’گیارہ ستمبر‘‘ ہو گیا اور اس خطے کی دنیا ہی خون آلود ہو گئی۔ اس جنگ میں عالمی قومی سرحدوں کی حرمت کو پامال کرنے کے لئے امریکہ نے ایک جارحانہ تصور "Hot Pursuit" کے نام پر دیا تھا جو اس دن سے دنیا بھر کی ڈکشنریوں میں آج بھی ان معنوں میں درج کیا جاتا ہے کہ ’’کسی مشتبہ قانون توڑنے والے یا دشمن فوج کے سپاہیوں کا دوسرے ممالک کی سرحدوں کے اندر جا کر پیچھا کرنا‘‘۔ افغانستان میں گیارہ ستمبر سے پہلے ہی اس کا آغاز کر دیا گیا تھا، بل کلنٹن کے دور میں 1999ء کے سال افغانستان میں اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر میزائلوں سے ناکام حملہ کیا گیا اور یہ میزائل پاکستانی حدود میں گر کر تباہ ہو گئے۔ لیکن جیسے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو یہ پہیہ اُلٹا چلنا شروع ہو گیا۔ یعنی اب امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کی سرحدوں کو پامال کرتا اور مشتبہ افراد پر ڈرون حملوں، میزائلوں کو اکثر اوقات سی آئی اے اور ایف بی آئی کے دستوں کے ذریعے پاکستان کی حدود میں کارروائی کرتا۔ قبائلی علاقوں میں 2008ء میں تحریکِ طالبان پاکستان کے قیام کے بعد تو یہ سلسلہ مسلسل اور مستقل ہو گیا۔ نیک محمد سے لے کر ڈام ڈولہ کے اسّی طلبہ اور حکیم اللہ محسود تک لاتعداد لوگ امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ افغانستان میں ذلت آمیز امریکی شکست اور 15 اگست 2021ء کو طالبان کی حکومت کے قیام کے فوراً بعد ہی امریکی اشیرباد سے بنائی گئی ’’داعش‘‘ سے افغانوں پر دہشت گرد حملے کروائے گئے۔ جب ان حملوں کے باوجود بھی طالبان وہاں امن و امان قائم رکھنے میں کامیاب رہے، تو امریکی تلملا اُٹھے۔ گزشتہ سال اماراتِ اسلامیہ افغانستان، پاکستان حکومت سے مل کر ٹی ٹی پی کے افراد کو واپس پاکستان میں پُرامن طور پر آباد کروانے میں مصروف ہو گئی تاکہ سرحد کے دونوں جانب امن قائم ہو سکے۔ پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کونسل میں چالیس ہزار سے زائد افراد کو کارآمد شہری بنانے کی تجویز منظور ہوئی اور اس کے لئے فنڈز بھی مختص کر لئے گئے، لیکن جیسے ہی مارچ 2022ء کے آخری ہفتے میں ’’رجیم چینج‘‘ کے ہنگامے شروع ہوئے تو پھر یہ امن کا سفر روک دیا گیا یا ’’رکوا دیا گیا‘‘۔ حکومت بدلتے ہی پاکستان میں ایک دفعہ پھر ویسی ہی کشمکش کا آغاز ہو گیا جیسی سوات اور قبائلی علاقوں میں پوری ایک دہائی تک چلتی رہی تھی۔ اس تازہ صورت حال سے ہی ’’امریکہ صاحب بہادر‘‘ کے آئندہ کے منصوبوں اور خطے میں اس کے مکمل اثرورسوخ بلکہ موجودگی کا سراغ ملتا ہے۔ عمران خان کا امریکی اڈے دینے کے جواب میں "Absolutely Not" کہنا انتہائی تکلیف سے سنا گیا تھا، اس کا جواب اس قوم سے جو انتقاماً لیا گیا، اسے ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ لیکن اسی امریکی منصوبے کی کامیابی، بلاول بھٹو کی امریکہ یاترا کے بعد اس اعلان سے نظر آتی ہے کہ بلاول نے ’’فرمایا‘‘ ہے کہ امریکہ ہمیں افغانستان کی سرحد سے ہونے والے حملوں اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے امداد دے گا۔ بلاول کا یہ بیان 24 دسمبر 2022ء کو آیا اور اس کے بعد اس ملک میں اچانک دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ہو گیا۔ اگلے ہی دن 25 دسمبر کو صرف بلوچستان میں نو دہشت گرد حملے ہوئے۔ ایک بار پھر پاکستانی نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس دفعہ نئے لوگ اور نئے حکمران تھے، جنہوں نے دہشت گردوں سے لڑنے کا جیسے ہی عزمِ مصمّم کیا، اگلے ہی دن امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ ’’پاکستان کو اپنے خلاف ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے خلاف دفاع کا حق حاصل ہے اور ہم افغانستان سے کہتے ہیں وہ اپنی سرزمین دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال نہ ہونے دے‘‘۔ ایک ہی سانس میں کہے گئے ان دونوں فقروں کا مطلب پاکستانی عوام خوب جانتی ہے کیونکہ انہوں نے اس کے نتائج بھگتے ہیں۔ اماراتِ اسلامیہ افغانستان کی سرحد چھ ممالک، پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور چین سے ملتی ہے لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ہمیشہ دہشت گردی کا خطرہ صرف پاکستان کو ہی ہوتا ہے۔ حالانکہ ان تمام ممالک میں بھی ریاست مخالف دہشت گردی کی کارروائیوں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ تاجکستان سے افغانستان کی سرحد 1304 کلو میٹر لمبی ہے اور اسی ملک سے امریکی افواج افغانستان میںد اخل ہوئی تھیں۔ شمالی اتحاد اسی ملک کے راستے بھارت، امریکہ اور ایران سے مدد حاصل کر کے 1995ء سے 2001ء تک طالبان سے مسلسل لڑتا رہا۔ یہ ملک 1992ء سے لے کر 1997ء تک ایک طویل خانہ جنگی کا شکار رہا اور تاجکستان کی حکومت مسلسل یہ الزام لگاتی رہی کہ یہاں پر ہونے والی خانہ جنگی کو اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور افغانستان سے احمد شاہ مسعود کی جمعیت اسلامی کی مدد حاصل ہے۔ اس خانہ جنگی میں ملک بالکل تباہ ہو گیا۔ بارہ لاکھ تاجک مہاجر بن گئے اور آخر کار 1997ء میں وہاں امن معاہدہ ہو گیا اور اب راوی چین لکھتا ہے۔ افغانستان کی دوسری سرحد ازبکستان کے ساتھ ہے جو صرف 143 کلو میٹر ہے لیکن اس ملک میں 1998ء میں بننے والی اسلامک موومنٹ آف ازبکستان آج بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب داعش عراق اور شام میں موجود تھی تو 2015ء میں اس گروپ نے واضح طور پر ان سے اپنے الحاق کا اعلان کیا۔ اس کا بانی طاہر یلدو شوف القاعدہ کے ساتھ کارروائیوں میں شریک رہا۔ ایک زمانے میں وہ پشاور میں رہتا تھا اور افغانستان اور ازبکستان میں کارروائیوں کی نگرانی کیا کرتا تھا۔ اس گروپ نے امریکہ کے خلاف طالبان کے ساتھ شانہ بشانہ جنگ کی اور آج بھی ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کئی ملکوں میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ افغانستان کی تیسری سرحد ترکمانستان کے ساتھ ہے جو 744 کلو میٹر لمبی ہے۔ یہاں حکومت کی طرف سے مذہب پر مکمل پابندی ہے۔ صرف اشک آباد کی ایک یونیورسٹی میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن ایک سال میں دس طلبہ سے زیادہ داخلہ نہیں لے سکتے، جبکہ عورتوں پر تو مذہبی تعلیم حاصل کرنے پر مکمل پابندی ہے۔ چوتھا ملک چین ہے جس کے ساتھ 76 کلو میٹر لمبی سرحد ہے اور چین کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کا یہ عالم ہے کہ وہ ریلوے لائن جو سی پیک کے تحت چین نے خنجراب سے کراچی تک بچھانی تھی، اب اس کے فنڈز انہوں نے افغانستان منتقل کر دیئے ہیں اور وہاں کئی سو کلو میٹر ریلوے لائن بچھائی بھی جا چکی ہے اور ٹرین بھی روزانہ چل رہی ہے۔ پانچواں ملک ایران ہے جو پاکستان کے بعد افغانستان کی صورتِ حال سے شدید متاثر ہوا ہے۔ ملا محمد عمرؒ کے زمانے میں ایران کے افغانستان کے ساتھ شدید اختلاف تھے، کیونکہ ایران شمالی اتحاد کی مدد کرتا تھا۔ امریکیوں کے آنے کے بعد بھی ایرانی کسی نہ کسی شکل میں طالبان کے خلاف امریکہ کی مدد کرتے رہے ہیں۔ ایران کے بارے میں ہی ملا محمد عمرؒ نے اپنا تاریخی فقرہ بولا تھا کہ ’’افغانستان ایک گوند کا تالاب ہے جس میں داخل ہونا آسان اور نکلنا بہت مشکل‘‘ ہے۔ یہ تمام ممالک صدیوں سے افغانستان کے ہمسائے چلے آ رہے ہیں لیکن سب مطمئن ہیں مگر شکایت صرف ہمیں ہی کیوں ہے۔ اس لئے کہ ہم شروع دن سے امریکی گود میں بیٹھ کر 50 کی دہائی میں ہی ’’بڈابیر‘‘ کا اڈہ انہیں دیتے ہیں اور امریکی جہاز ’’یوٹو‘‘ افغانستان کی سرزمین سے ہوتا ہوا روس کی جاسوسی کرنے جا نکلتا ہے۔ اس دن سے لے کر آج تک پاکستان میں افغانستان کے حوالے سے جو پالیسی بنی یا جو ایکشن بھی ہوا وہ امریکی اشارے پر ہی ہوا۔ 1979ء سے 1988ء تک ہم پر ’’خاد‘‘ اور ’’کے جی بی‘‘ حملہ آور تھی اور 2001ء سے آج تک ہم پر امریکہ کے پالے ہوئے گروپس دہشت پھیلاتے ہیں۔ یہ قوم امن کے دن گزارنا چاہتی ہے لیکن امریکی امداد کی جھنکار ہمارے سیاسی آقائوں اور ریاستی اہلکاروں کو امریکہ سے آزاد ہی نہیں ہونے دیتی۔(ختم شد)