ستیاناس ہو ان موٹے کیمرے والے موبائل فونوں کا، کہ اب کچھ بھی نجی، خلوت زدہ اور آپس کا معاملہ نہیں رہا۔ اسی لیے، اب بڑی سہولت سے پردہ نشینوں کے نام منظر عام پر آ جاتے ہیں اور صرف نام ہی نہیں بلکہ ان کے کام بھی اپنی پوری حسن کارکردگی کے ساتھ یوں جلوہ گر ہوتے ہیں کہ عوام الناس بے چارے سوچتے رہے جاتے ہیں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے…!! قاسمی صاحب نے کیا اچھا کہا تھا کہ ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے سو، اپنے معزز پردہ نشین کا یہ تھرکتا ہوا ہزارواں چہرہ دیکھ کر لوگوں کا ہکا بکا رہ جانا قطعاً بعید از قیاس نہیں ہے۔ ایک ایک دو دو منٹ کی غیر واضح اور مبہم ویڈیوز میں کیسے کیسے معزز لوگ کس سبھائو سے کلاسیکی رقص عرف اعضاء کی شاعری کرتے دکھائی دیئے۔ رقص کے نرت بھائو برتنا بھی کیا کم تھا کہ سر پر مشروب خاص کا ایک عدد گلاس بھی ٹکا لیا۔ یوں موسیقی کی ردھم پر تھرکتے ہوئے صاحب کے پائوں اور سر پر رکھا ہوا گلاس۔ بھئی واہ۔ توازن کا کیا شاندار نمونہ تماشائیوں کے لیے پیش کیا ہے۔ انہوں نے! خیال ہے جس سمے وہ اپنی فنکارانہ مشاقی کا فقید المثال مظاہرہ فرما رہے تھے، ان کے گمان میں نہ ہو گا کہ ان کی یہ فنکارانہ ہنرمندی محض ان کی اس نجی محفل اور مزاج آشنا دیرینہ دوستوں تک ہی محدود نہ رہے گی بلکہ ایک زمانہ ان کے ہنر کی داد دے گا۔ دیکھ لیجئے! اسے کہتے ہیں سچے فن کی خوشبو۔ فنکار نے اپنے فن میں خون جگر کی آمیزش کی ہو تو پھر اس کے فن کی خوشبو نجی محفلوں کی فول پروف سکیورٹی سے نکل کر چار دانگ عالم پھیل جاتی ہے اور اب ان کے فن کی شہرت کا عالم یہ ہے کہ گھر کی چار دیواری سے باہر ستم ہائے روزگار میں مصروف مرد حضرات ہو ںیا پھر گھروں میں کام کرنے والی بیبیاں، سبھی، اپنے اپنے فونوں کی سکرینوں پر ان ویڈیوز کی سنسنی خیزی سے لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔ اب مقبول ڈراموں اور کھڑکی توڑ فلموں کا زمانہ نہیں۔ ویڈیوز کا زمانہ ہے بھئی۔ ویڈیوز بھی نجی محفلوں میں فلائی ہوئی۔ ایکڑوں پر پھیلے فارم ہائوسز، امارات کی پر تعیش نجی محفلیں، یا پھر گیسٹ ہائوسز کے محفوظ ماحول، جہاں یہ پردہ نشین عوام کی خدمت، عدلیہ اور انصاف کے گیسو سنوارنے کے بعد، اپنی تھکن اتارنے پہنچتے ہیں تو اپنی ذات پر پہنے ہوئے سارے مصنوعی خول اتار کر اپنے اصل کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ذات کی اصلیت کے یہ مناظر دیکھ کر گاہے، انسان کو گھن آنے لگتی ہے۔ معاشرے میں معزز عہدوں پر بیٹھے ہوئے یہ کردار کے کھوکھلے لوگ کس قدر بڑے نقال ہیں۔ کیسے بڑے فنکار ہیں۔ معزز اور پروقار ہونے کی کیسی بڑھیا اداکاری کرتے ہیں۔ عدل کو فروخت کرتے ہیں انصاف کو بیچتے ہیں۔ یہ جن معزز اور مکرم عہدوں پر براجمان ہیں، ان کا بوجھ یہ اپنے ضمیر پر رتی بھر محسوس نہیں کرتے۔ یہ وہ آئینہ خانہ ہے جس میں اہل اختیار اور اشرافیہ کے بیشتر چہرے بدنما دکھائی دیں گے۔ کیا انصاف دینے والے قاضی، کیا ریاست کا انتظام چلانے والے بیورو کریٹ اور کیا قانون سازی کرنے والے عوامی نمائندے، سبھی ایک جیسے زوال کا شکار ہیں۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ کردار کا یہ زوال صرف امرائ، اشرافیہ اور اہل اقتدار و اختیار تک ہی محدود نہیں، یہ گلیشیئر کا وہ پانی ہے جو اوپر سے نیچے تک آتا ہے، جو ہزاروں فٹ کی اونچی چٹانوں سے بالآخر ڈھلوانوں اور میدانوں تک سفر کرتا ہے۔ تو پورا معاشرہ بھی اس زوال کا شکار ہوجاتا ہے۔ بڑا تاجر بے ایمان ہے تو چھابڑی والا ایمانداری کیوں دکھائے، سو وہ بھی اپنے حصے کی فنکاری ہی دکھائے گا۔ خاکروب سے لے کر چپڑاسی تک، سب اپنے اپنے کام میں ڈنڈی مارنے کے ماہر ہو چکے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ بڑے عہدوں پر موجود اگر اپنی ذمہ داری میں چھوٹی سی کوتاہی بھی کریں گے تو بڑی بددیانتی تصور ہو گی کیونکہ اس کے اثرات زیادہ دور رس ہوں گے۔ عدل کے ایوانوں میں بطور جج اپنی ذمہ داری ادا کرنے والے بھی، لاکھوں دوسرے پاکستانیوں کے طرح نوکری کر رہے ہوتے ہیں، ہر ماہ کی پہلی کو انہیں بھی دوسرے سرکاری ملازموں کی طرح سرکار سے تنخواہ ملتی ہے لیکن ان کی یہ نوکری محض ایک نوکری نہیں ہے بلکہ ایک حساس ذمہ داری ہے کیونکہ انہیں انصاف اور عدل کرنے جیسا انتہائی اہم فریضہ ادا کرنا ہے۔ اس معاشرے کی کشتی تباہی کے گرداب میں پھنس جاتی ہے جہاں انصاف نہ ہو۔ ایسا ہی معاملہ ہمارے سماج کے ساتھ ہوا ہے۔ انصاف دینے والے قلم ان طاقتوں کے پاس گروی رکھ دیئے گئے جو اپنے حق میں فیصلے کروانے کی سکت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی یہاں ’’جج خریدنے‘‘ کی اصطلاح عام نہیں ہوئی۔ خریدا بھی وہی جاتا ہے جس نے اپنی قیمت لگائی ہو۔ پھر ان کو خریدنے والے ان کے لیے امارات کے پر تعیش کلبوں میں نجی محفلیں آراستہ کرتے ہیں۔ مخفی کیمروں سے ویڈیوز بناتے ہیں اور وقت آنے پر انہیں ریلیز کرتے ہیں۔ خاطر جمع رکھیں۔ ایسی سینکڑوں ویڈیوز نجی محفلوں کی فول پروف سکیورٹی سے باہر عوام الناس میں دھوم مچانے کو تیار ہیں۔ مختلف شعبۂ ہائے زندگی کے معزز اور پروقار پردہ نشین ہوشیار باش! یاد رہے کہ یہ مقبول ڈراموں اور بلاک بسٹر فلموںکا دور نہیں بلکہ ’’کھڑکی توڑ‘‘ قسم کی ویڈیوز کا زمانہ ہے۔