11دسمبر 2018ء ڈینور کولو روڈو کی ایک یخ بستہ شام تھی اور ہم پروفیسر ونڈھم کے گھر ڈنر پر مدعو تھے۔ انٹرنیشنل وزیٹر لیڈر شپ پروگرام میں یہ ایک ہوم ہوسپٹیلیٹی کا سیگمنٹ تھا جس میں تمام ممبرز کو چار چار کے گروپ میں بانٹ کے کسی امریکی گھرانے میں ڈنر پر جانا تھا۔ یہ ہمارے پروگرام کا بہت دلچسپ حصہ تھا کیونکہ ابھی تک ہم واشنگٹن ڈی سی اور ڈینور کولوروڈو میں مختلف یونیورسٹیوں اداروں اور میڈیا ہائوسز کے وزٹ کر رہے تھے لیکن اس طرح کسی امریکی خاندان کے گھر جا کر ان کے رہن سہن طور طریقوں کو جاننا‘ ان کے ساتھ ان کے گھر کا پکا ہوا کھانا کھانا اور ایک بالکل آرام دہ دوستانہ ماحول میں بیٹھ کر بات چیت کرنا ہمارے پروگرام کا وہ حصہ تھا جس کا کم از کم مجھے بہت انتظار تھا۔ سو 11دسمبر 2018ء کو ڈینور کولوروڈو کی ایک انتہائی سرد شام ہم پروفیسر ونڈھم لوپیسکو (Windham Loopesko)لوپیسکو اور مسز این ونڈھم کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے ڈینور کے ایک پوش علاقے میں ان کے گھر پہنچے۔ ہم چار صحافی خواتین اس گروپ کا حصہ تھیں اور ہمارے کوآرڈی نیٹر ایڈمن سید حسین صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ ہم سید حسین کے ہمراہ اپنے امریکی میزبان کے گھر پہنچے۔ مسٹر اور مسز ونڈھم نے بڑا پرتپاک استقبال کیا۔ سرخ اور سبز رنگ سے سجے ہوئے خوبصورت ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ اس کے بعد مسز این ونڈھم جنہیں ہم نے بعدازاں بلا تکلف انٹی این کہنا شروع کر دیا۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگ کولڈ ڈرنک کیا لیں گے وائن یا ایپل جوس ظاہر ہے سب نے ایپل جوس کا انتخاب کیا۔ میز پر چند چیزیں ایپی ٹائزر appitizerکے طور پر رکھی ہوئیں تھیں۔ چپس‘ ایووکاڈو کی چٹنی اور خشک بیگن اور خشک سبز رنگ کی پھلیاں جو ہمارے عموماً گوشت میں ڈال کر پکائی جاتی ہیں۔ خشک بیگن کے قتلے بھی ہم زندگی میں پہلی بار ہی کھا رہے تھے۔ آنٹی این تھوڑی دیر بعد برف سے بھرے ہوئے گلاسوں میں سیب کا جوس ڈال کر لے آئیں۔ اتنی یخ بستہ سردی میں برف سے بھرے ہوئے گلاس ویسے اب تک ہم لوگ اس کے عادی ہو چکے تھے کہ امریکی برف باری میں ہی پہلے گلاس کو برف سے بھرتے ہیں اور پھر اس میں چار گھونٹ پانی ڈال کر پیتے ہیں۔ امریکیوں کی اب برف خوری کا اندازہ ہمیں خوب ہو چکا تھا سو ہم جب بھی پانی یا جوس طلب کرتے فوراً کہتے ود آئوٹ آئس‘لیکن ہم یہاں کہنا بھول گئے تھے سو ہمارے سامنے برف سے بھرے گلاسوں میں ایپل جوس پڑا تھا جو اس دسمبر میں ڈینور کی سخت سردی میں ہمیں پینا پڑا۔ ہمارے میزبان مسٹر اور مسز ونڈھم اپنے گلاسوں میں ریڈ وائن ڈال کر چیئرز کرتے ہیں اور گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں سے تعارف حاصل کرنے لگے۔ مسز ونڈھم تعریف کرنے کے معاملے میں کافی فیاض تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے ہمارے پاکستانی لباس‘ اس پر کی گئی کڑھائیوں کی خوب تعریف کی اور بار بار کہے جاتیں۔ I love colourful dresse I love your embrioderies اور پھر اپنی ٹی شرٹ اور ٹرائوزر کی طرف دیکھ کر کہنے لگیں کہ میں نے تو گھرمیں پہننے والا سادہ سا لباس پہن رکھا ہے۔ آپ سب تو شاندار لباس پہنے ہوئے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ وہ ایکیسوزمی کہہ کر گئیں اور تھوڑی دیر کے بعد سرخ اور سبز رنگ کا ایک خوبصورت لباس پہنے حاضر ہو گئیں۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں آپ سب کے سامنے مجھے وہ کپڑے اچھے نہیں لگ رہے تھے اس لئے میں بھی اپنا بہتر لباس پہن کر آ گئی ہوں۔ جوس پیتے ہوئے اور آلو کے چپس ایوکاڈو کی چٹنی سے کھاتے ہوئے ہم تعارف کے ابتدائی مرحلے میں تھے کہ ایک جانب سے بل ڈاگ کی شکل کا ایک خوفناک پیٹ ڈاگ کمرے میں نمودار ہوا اور سیدھا میری طرف آیا۔ اسے دیکھ کر میری تو باقاعدہ چیخیں نکل گئیں۔ اگرچہ اس خوفناک کُتے کو دیکھ کر میری باقی ساتھی خواتین نے بھی خوفزدہ ہو کر احتجاجی چیخیں ضرور بلند کیں لیکن میری خوف زدہ چیخوں سے پروفیسر ونڈھم کا گھر گونج رہا تھا کیونکہ ان کا لاڈلا کتا پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں میں سے صرف میرے ساتھ گریٹنگز کرنا چاہتا تھا مگر مجھے اس کی یہ آئو بھگت قطعاً گورارا نہیں تھی۔ خیر پروفیسر صاحب نے فوراً کتے کو پچکارہ پکڑا اور اسے سمجھا بجھا کر ڈرائنگ روم سے باہر بھیجا۔ ابھی جان میں جان آئی ہی تھی کہ بل ڈاگ دوبارہ نمودار ہوا اور پھر میری کرسی کے گرد چکر لگانے لگا ظاہر ہے دوبارہ سے کمرہ احتجاجی آوازوں سے بھر گیا۔ میں نے اپنے کوآرڈی نیٹر سید حسین صاحب سے پوچھا سر اس فارم کا کیا ہوا جو ہم سے آپ لوگوں نے فل کروایا تھا جس میں ہوم ہوسپٹیلیٹی کے حوالے چند سوالات پوچھے گئے تھے۔ جس میں تقریباً ہم سب نے ہی حلال کھانے کے اور ہوم ود آئوٹ پیٹ(Home without Pet)کے آپشن کو چنا تھا کیونکہ ہمیں اندازہ تھا کہ امریکی اپنے پالتو کتوں کو بالکل بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں اور یہ پالتو کتے بلیاں ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ‘ کھاتے پیتے اور سوتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے پالتو کتے بلیوں کے بغیر گھر کا آپشن چنا تھا اور ہم اس یقین کے ساتھ بیٹھے کہ یہاں کوئی پالتو کتا یا بلی نہیں ہو گی۔ اچانک سے پروفیسر ونڈھم کے خوفناک برائون رنگ کے کتے نے انٹری ڈال کر ہمیں سخت خوف زدہ کر دیا تھا۔سید صاحب اس ساری صورت حال پر مسکرا رہے تھے اور پھر بولے بہتر ہے کہ آپ اپنی سیٹ بدل لیں۔ میں نے جھٹ سے یہ مشورہ مان لیا پھر مسٹر ونڈھم اور مسز این ونڈھم سے معذرت بھی کی کیونکہ وہ اپنے لاڈلے کتے کے لئے ہماری ناپسندیدگی اور بے قدری کچھ زیادہ خوش نہیں تھے اور ان کا خیال تھا کہ ہماری احتجاجی چیخوں نے ان کے لاڈلے کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ (جاری)