سرائیکستان قومی کونسل کے چیئرمین ، سرائیکی ادبی بورڈ رجسٹرڈ ملتان کے صدر ، معروف ماہر لسانیات پروفیسر شوکت مغل کی وفات پر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اپنے تعزیتی پیغام میں دعائے مغفرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے ادیب تھے ، ان کی وفات سے سرائیکی کا ایک باب ختم ہوگیا ہے، ملک و قوم کیلئے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ دریں اثناء مرحوم کی رہائش گاہ جھوک مغل پیپلز کالونی ملتان میں تعزیت کرنے والوں کا دو دن سے تانتا بندھا ہوا ہے اور پورے وسیب سے شاعر ، ادیب ، دانشور اور سیاسی عمائدین تعزیت کیلئے آ رہے ہیں ۔ ان کے لواحقین میں دو بیٹے رضوان مغل ، ذیشان مغل ، تین بیٹیاں اور بیوہ شامل ہیں ۔ پروفیسر شوکت مغل پانچ بھائی تھے ،ان میں غلام شبیر مغل ،ڈاکٹر عبدالوحید مغل ، عبدالحمید مغل اور عبدالمجید مغل ۔ پروفیسر شوکت مغل کی وفات ملک و قوم کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے اور انکی وفات کا خلا بہت عرصے تک پُر نہ ہو سکے گا۔ پروفیسر شوکت مغل 4 جون 1947ء کو اندرون پاک گیٹ ملتان حسین بخش مغل کے گھر میں پیداہوئے ۔ پرائمری تعلیم اپنے محلے کے سکول سے حاصل کی ۔ 1963ء میں گورنمنٹ ملت ہائی سکول ملتان سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا ، ایف اے 1965ء اور بی اے 1968ء گورنمنٹ بوسن روڈ سے کیا جبکہ ایم اے اردو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے کیا ۔انہوں نے عملی زندگی کا آغاز 1971ء سے شجاع آباد کے قصبہ میراں کے مڈل سکول سے بطور مڈل معلم کیا۔ 1973ء میں بطور لیکچرار سول لائن کالج ملتان تعینات ہوئے ۔ 1990ء میں آپ اسسٹنٹ پروفیسر بن کر گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن چلے گئے اور 2008ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد علمی ادبی کام کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیاسی میدان میں حصہ لیا ۔ سرائیکستان قومی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے کار ہائے نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ وسیب کے اجتماعات، احتجاجی ریلیوں ، دھرنوں میں آپ کا خطاب دلائل سے معمور ہوتا ، سیاسی حوالے سے آپ کی کتاب کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ پروفیسر شوکت مغل بنیادی طور پر ایک محقق تھے ، وہ اپنے کام کے بارے میں خود کہتے تھے کہ ابتدائی دنوں میں میرا کام مضامین اور اور انشائیوں کے حوالے سے تھا ، بعد میں تحقیق کی طرف توجہ کی ، خاص طور پر سرائیکی زبان بارے تحقیق کو اپنے لئے چن لیا ۔ اس طرح سرائیکی لسانیات اور لوک ادب پر تحقیق کو اپنا مشن بنا لیا ۔ پروفیسر شوکت مغل تاریخ کا شعور رکھتے تھے ۔انہوں نے اپنا کام دیانت اور خلوص کے ساتھ کیا ۔ پروفیسر شوکت مغل کی ساری کتابیں سرائیکی زبان کا سرمایہ ہیں اور ان کتابوں پر تفصیلی معلومات سے بھرے دیباچے ایک کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہ سارا سرمایہ جو پروفیسر شوکت مغل نے عرق ریزی کے ساتھ اکٹھا کیا ،آنے والی نسل کیلئے تحقیقی کام کی ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے اور نئے محققین کو جگہ جگہ پھرنے اور لائبریروں کی چھان پھٹک کے عذاب سے نجات دلاتا ہے۔ پروفیسر شوکت مغل سرائیکی زبان کے سچے شیدائی تھے ،سرائیکی کو اکیڈمک زبان بنانے میں ان کا کام نمایاں ہے، آج یونیورسٹیوں میں سرائیکی پڑھائی جا رہی ہے، ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے ،اس میں شوکت مغل کی کوششیں شامل ہیں۔ پروفیسر شوکت مغل لکھتے ہیںکہ زبان اور لسانیات کے ماہرین نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ زبان پر آب و ہوا ، زرعی پیداوار، جغرافیائی ماحول، لوگوں کے پیشے اور زندگی کے وسائل بہت اثر رکھتے ہیں ۔ اگر اس معیار پر پاکستانی زبانوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سرائیکی اپنے خطے کی مناسبت سے سب سے زیادہ میٹھی زبان ہے۔ سرائیکی زبان میں ایک ایک لفظ کئی کئی معنوں کیلئے استعمال ہوتا ہے ، اسکے محاورے علیحدہ ، اسکی کہاوتیں علیحدہ ،اسکے مصادر علیحدہ ہیں ۔ بلاشبہ سرائیکی قدیم اور پاکستان کی سب سے بڑی زبان ہے جو پاکستان کے تمام صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ پروفیسر شوکت مغل کا کام ایک ادارے کا کام ہے ، بلکہ سچ یہ ہے کہ علمی و ادبی حوالے سے ادارے اتنا کام نہیں کر سکے جتنا پروفیسر شوکت مغل نے اکیلے کیا ۔ ان کی ہر کتاب ایک حوالے کی کتاب ہے اور ایک ایک کتاب پر کئی کئی مضامین لکھے جا سکتے ہیں ۔ ان کی ایک کتاب ’’ کتاب دی گال کتاب دے نال ‘‘ شائع ہوئی تھی ، جس میں انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں کتاب دوستی کے ساتھ ساتھ ، ان اصحاب کا بھی ذکر کیا تھا جو کتاب لے کر کتاب واپس کرنے کو بے وقوفی سمجھتے ہیں اور اس میں کچھ ایسے اصحاب کا تذکرہ بھی آیا تھا جن کی سوچ میں کتاب چوری ، چوری کے زمرے میں نہیں آتی ۔ اسی طرح ایک کتاب ’’ اصطلاحات پیشہ وران ‘‘ جس میں دو سے زائد پیشوں کے اصطلاحی الفاظ و تراکیب سرائیکی زبان میں اردو ترجمے کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں ۔ یہ کتاب بر صغیر میں بولی جانیوالی تمام زبانوں سے ممتاز و منفرد ہے کہ اردو ، ہندی سمیت دیگر زبانوں میں اس موضوع پر کتابیں شائع ہوئیں مگر شوکت مغل صاحب کی کتاب ان سے سے ضخیم ہے ۔ مغل صاحب نے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا کہ اس میں بیس سال کا عرصہ لگا اور اس کتاب کی وجہ سے وسیب کا کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں میں نہ پہنچا ۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ قدیم الفاظ بزرگوں سے ملتے ہیں اور میں جہاں جاتا ، سب سے بزرگ اور بوڑھے ہنر مند سے ملنے کی کوشش کرتا مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ سادہ لوگ تھے ، پڑھے لکھے نہیں تھے اور جب میں ان سے سوال کرتا تو وہ پریشان ہو جاتے کہ نہ جانے یہ کیوں پوچھ رہے ہیں اور ان کے پوچھنے کا مقصد کیا ہے ۔ پھر مجھے لمبی چوڑی وضاحت کرنا پڑتی اور ان کو قائل کرنا پڑتا کہ میں اچھے مقصد کیلئے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں اور یہ الفاظ اکٹھے کر رہا ہوں تاکہ یہ کتاب میں زندہ رہیں اور متروک نہ ہو جائیں ۔ یقینا مغل صاحب کا یہ کام اس لئے بھی لائق صد تحسین ہے کہ آج بہت سے پیشے معدوم ہو چکے ہیں ، اور پیشوں کے الفاظ تو کیا ، پیشہ ور ڈھونڈنے سے نہیں ملتے ۔ پروفیسر شوکت مغل کی 60 سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ ان میںسرائیکی محاورے ، سرائیکی املا دے مسئلے، سرائیکی مصادر ، سرائیکی دیاں خاص آوازاں دی کہانی ، اردو میں سرائیکی زبان کے انمٹ نقوش ، ملتان دیاں واراں ، سرائیکی نامہ ، قدیم اردو لغت اور سرائیکی زبان ، سرائیکی اکھان( تین جلدیں ) سرائیکی زبان وچ کنایہ تے قرینہ ، آؤ سرائیکی پڑھوں ، شوکت اللغات، اصطلاحات پیشہ وران، دلی ڈھائی کھوہ ، کتاب دی گال کتاب دے نال ، تفہیم فرید و دیگر شامل ہیں ۔ ان میں سے دو کو اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے خواجہ فرید ایوارڈ بھی ملا ۔ لسانیات اور تاریخ ان کا موضوع تھا ، 3 جون ان کی وفات کا دن تاریخی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔