چل میرے خامہ بسم اللہ۔ آپ کہیں گے‘ حکومت بنی نہیں اور ممکنہ پالیسوں پر اعتراضات اب سے شروع ہو گئے۔‘‘ پینڈوسیا نی اچکے پہلے‘‘ لیکن ایسا بھی نہیں ہے ۔یہ آنے والی حکومت کی پالیسیوں کا رونا نہیں بلکہ اس پالیسی پر اعتراض ہے جو ناگزیر بنا دی گئی ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ یہ کام اس چڑیا نے کیا ہے جس کا نام انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ہے۔ میں تو گزشتہ کئی دنوں سے چیخ رہا تھا کہ نگران حکومت ہمیں آئی ایم ایف کے دروازے پر سجدہ ریز ہونے کے لیے تیار کر رہی ہے۔ نگران وزیر خزانہ کا تو بس نہیں چلا ‘وگرنہ وہ یہ کام خود کر کے جاتیں۔ جس تیزی سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ‘وہ صاف بتا رہا تھا کہ انہیں اس کی بہت جلدی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں تو ڈالر یوں اوپر نیچے ہوتا ہے مگر یہ بھی کبھی ہوا ہے کہ انٹرابنک میں ڈالر میں یوں اچانک کمی ہو جائے جو نئی حکومت آنے پر ہوئی ہے۔ کیا پہلے اضافہ مصنوعی تھا‘ جعلی تھا یا بدنیتی پر مبنی تھا۔ کچھ تو بتائو یار۔ یہ انٹرا بنک ریٹ سرکاری ریٹ ہوتا ہے۔ ایس بی بی کے بارے میں پہلے روز ہی سے میں شور مچا رہا تھا کہ 1۔ یہ روپے کی قیمت کم کرے گی۔ 2۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرے گی۔ 3۔ بنک ریٹ میں تبدیلی لائے گی۔ 4۔ جابجا ڈیوٹیاں عائد کرے گی۔ 5۔ اور بالآخر ملک کو آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر لا ڈالے گی۔ اب خبر آ گئی ہے ناکہ پاکستان آئی ایم ایف سے 12ارب ڈالر کی بھیک مانگے گا ۔امریکہ وزیر خارجہ نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ دیکھنا ہوشیار رہنا مبادا یہ قرضہ جو تم پاکستان کو دو گے‘ چینی قرضہ ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ جس اخبار نے یہ خبر دی اس نے یہ مشورہ بھی دیا کہ امریکیو! ہشیار ہو جائو کہ اس قرضے میں ہمارے ٹیکس دہندگان کے ڈالر بھی شامل ہوں گے جو چین کے خزانے میں بذریعہ پاکستان جا سکتے ہیں۔ چنانچہ امریکہ ہشیار ہو گیا۔ نئی شرائط کی منصوبہ کرنے لگا۔ یہ عندیہ دیا کہ نئی حکومت آتی ہے۔‘اس کے ساتھ بات چیت ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف نے اگرچہ وضاحت کی ہے کہ ابھی نہ پاکستان نے درخواست کی ہے نہ ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے‘ تاہم پاکستانی سرکار کے باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس کا پورا بندوبست ہو گیاہے۔ مالی معاملات ہمارے ہاں کیسے طے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ اگر یہ کام ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی ٹیمیں بیٹھ کر نہیں کرتیں تو بھی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسد عمر نے کچھ اس قسم کا کھلا اشارہ دیا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں۔ یہ جو معاشی ماہرین ہوتے ہیں ‘یہ سارا سال کام کرتے رہتے ہیں۔ یاد ہے جب نواز شریف کی حکومت آئی تو اسحق ڈار نے پلک جھپکتے ہی نیا بجٹ پیش کر دیا تھا۔ وہ تو اسے اپنا کارنامہ بتاتے تھے۔ مگر یہ ایک کھلا راز ہے کہ سب کچھ تباہ ہوتا ہے۔ آنے والے کو اس پر صرف رضا مندی دینا ہوتی ہے‘ بس کچھ اونچ نیچ کر دی۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے چنگل میں کیوں پھنسایا جا رہا ہے اور اس کے ہم پر کیا اثرات پڑیں گے۔ میں۔ ہم ایسا پہلی بار نہیں کر رہے شاید یہ 13ویںبارہو۔ اس بار اس کی اہمیت دو چند ہے۔ ماضی بعید کی کہانی تو بہرحال چھوڑیے‘ مجھے بھی یاد نہیں‘ تلاش کرنا پڑ ے گی‘ تاہم ہماری گزشتہ دونوں جمہوری حکومتیں بھی باری باری آئی ایم ایف کے پاس گئی تھیں۔ مشرف کے دور میں شوکت عزیز بڑی شان کے ساتھ یہ اعلان کر کے گئے تھے کہ لو ہم نے آئی ایم ایف سے چھٹکارا پا لیا مگر 2008ء میں ہمیں دوبارہ جانا پڑا اس حکومت نے بھی جاتے جاتے اعلان کیا تھا کہ ہم نے اس مصیبت سے گلو خلاصی پا لی ہے۔2013ء میں ہم دوبارہ گئے ۔جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کام کے لیے ہمیں امریکہ کی مدد لینا پڑی کیونکہ وہاں قبضہ امریکہ اور یورپ کا ہے کہ پیسہ ان کا ہے۔2008ء میں تو تحریری طور پر بھی امریکہ نے ہماری سفارش کی تھی اور 2013ء کے بارے میں اسحق ڈار کہتے تھے ہم نے یہ کام امریکہ کی مدد سے کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2008ء میں یہ پیکیج ملنے کے بعد ہم نے سوات آپریشن اور بعد میں جنوبی وزیرستان کا آپریشن کیا تھا۔ ہم نے اور بھی کچھ حاصل کیا ہو گا اور امریکیوں نے بھی مزید کچھ وصول کیا ہو گا۔ اب بھی ہمیں کیا کچھ دینا پڑے گا اس کا کچھ کچھ اندازہ تو ہے مگر شاید پوری طرح احساس نہیں ہے۔ اس بار صرف دفاعی اور تزوینی معاملات ہی نہیں ہیں۔ صرف افغانستان اور دہشت گردی کے حوالے سے بعض باتیں منوانا نہیں ہے۔ بلکہ سی پیک کے حوالے سے کچھ رکاوٹیں کھڑی کرنا بھی ہے۔ یہ جو بات میں نے آخر میں کی ہے اس کے بارے میں ہمارے ہاںایک عرصے سے شور مچایا جا رہا ہے لوگ اسے محض پروپیگنڈہ سمجھتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے۔ آئی ایم ایف کی اوپر میں نے جن شرائط کا ذکر کیا اس میں ایک کا اضافہ کر دیجیے۔ وہ یہ کہ شرح نمو کو کم کیا جائے۔ مطلب اس کا ہمارے حوالے سے یہ بنتا ہے کہ سی پیک کی رفتار کو کم کیا جائے۔ شمشاد اختر نے تو جاتے جاتے اس کا بھی اشارہ دے دیا ہے کہ ہم نے جو شرح نمو 6.2طے کی ہے اسے کم کر کے 5.5کیا جا سکتا ہے۔ سن لیا آپ نے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ کہ ہماری ترقی کی رفتار پر روک لگائی جائے گی۔ تو مہنگائی بھی بڑھے گی اور بے روزگاری بھی۔ ہمارا اہداف یہ تھا کہ ہم اگلے سال تک شرح نمو 7فیصد تک لے جائیں گے‘ بلکہ کوشش کریں گے کہ یہ مزید دو ایک سال میں آٹھ فیصد تک جا پہنچے۔ یہ اپنے ہاں غربت دور کرنے اور بے روزگاری ختم کرنے کے لیے کم سے کم شرح ہے۔ اب ہم اگر آئی ایم ایف میں جاتے ہیں تو معاشی دلائل دے کرہمیں بتائیں گے کہ بس ترقی کی رفتار کم کرنا ہے کیونکہ ہماری معیشت اس کو سہار نہیں پا رہی مگر مطلب یہ ہو گا کہ سی پیک کی پیش رفت کو روک لگائی جائے۔ بڑی مشکل سے چین کی مدد سے ہمارے ہاں انرجی اور انفراسٹرکچر کے مسائل طے ہونے کے قریب ہیں کہ یہ نیا شکنجہ تیار ہے۔ آنے والی حکومت اپنے پورے دعوئوں کے باوجود یہ کہہ سکتی ہے کہ جانے والے خزانہ خالی چھوڑ کر گئے ہیں یہ ہر آنے والا کہتا ہے کہ Give the dar his due۔شاید ایسا نہیں ہے ۔ویسے تو ڈار صاحب نے مفتاح اسماعیل کے زمانے میں ایک بیان میں کہہ دیا تھا کہ مری بات مانی جاتی تو آپ کو آئی ایم ایف جانے کی ضرورت نہ پڑتی تاہم اور بھی بہت سی نشانیاں ہیں جو بتاتی ہیں کہ ہماری معیشت پر اصل بوجھ کیا پڑا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہمارے ہاں سے 15بلین ڈالر باہر گیا ہے۔ اس کی وجہ ملک کے حالات تھے۔ یہ ڈیڑھ سال ٹھیک اس وقت شروع ہوتا ہے جب نواز شریف پر عدالت عظمیٰ میں مقدمہ شروع کیا گیا۔ جسٹس جمالی رخصت ہوئے اور نیا بنچ تشکیل دیا گیا۔ اس وقت یہی 15ارب ڈالر ہے جس نے ہمارے ریزرو پر اثر ڈالر ہے۔ ڈار کی قیمت بڑھا کر ہم نے ایک نئی دوڑ شروع کر دی ہے۔ یہ چوبیس فیصد کے قریب ڈالر کی قیمت بڑھی ہے۔ اس سے ہمارے قرضوں میں اتنا ہی اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے اس صورت حال پر اگر امریکہ نظر رکھے ہوئے ہے اور منتظر ہے کہ نئی حکومت ان کے دربار میں درخواست لے کر حاضر ہو‘ تو چین بھی بے خبر نہیں ہے۔ اس لیے اس نے امریکہ کو ڈانٹ بھی پلائی ہے اور امید بھی ظاہر کی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے اپنے معاملات طے کرے گا۔ جانے والی حکومت کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ اس نے چین سے بھی شاید ساڑھے تین بلین لینے کا بندوبست کر رکھا تھا جن کی ایک قسط ابھی ابھی آئی ہے یا آیا چاہتی ہے۔ کیا موجودہ حکومت مزید ایسے بندوبست کر سکتی ہے کہ آئی ایم ایف سے نجات ملی رہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہے۔ اگر پیسہ ہی باہر سے لینا ہے تو آئی ایم ایف کیا برا ہے۔ برا یوں ہے کہ وہ ایسی شرائط منواتا ہے جو سامراجی ہیں۔ استحصالی‘ معاشی بھی اور سیاسی بھی۔ امریکہ کی چین سے ون روڈ ‘ ون بیلٹ کی جو لڑائی ہے وہ اس کی راہ میں روڑے اٹکانا چاہتا ہے‘ ہم اس چینی منصوبے کے پہلے مرحلے کے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ ہمیں توقع رکھنا چاہیے کہ چین ہمارے ساتھ اس مشکل وقت میں وہی رویہ اختیار کرے گا جو اس کی پالیسی کا خاصا ہے۔ چینیوں کا یہ کہنا کہ پاکستان ان کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا امریکہ کے لیے اسرائیل۔ یہ بڑی بامعنی بات ہے۔ گزشتہ دنوں امریکیوں نے ایک اور پروپیگنڈہ شروع کیا کہ سری لنکا اس بندرگاہ کو سنبھال نہ سکا جو چین نے ان کے لیے بنوائی ہے تو چین نے ان کی زمین اپنے قرضے کے بدلے ہتھیا لی ہے ۔یہ سب ہمیں ڈرانے کے لیے ہے۔ یاد رہے پاکستان سری لنکا نہیں ہے۔ نہ چین سے ان کے تعلق اس نوعیت کے ہیں‘ نہ ہمارا رویہ سری لنکا جیسا ہے جہاں بھارت دوست حکومت آنے کے بعد بہت کچھ بدلا بدلا دکھائی دیتا تھا کم از کم ہمیں اپنی آنے والی حکومت سے یہ توقع نہیں کہ اس بارے میں وہ کوئی غلط موقف اختیار کرے گی۔ میں وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ ساری گفتگو آنے والی حکومت کی کسی پالیسی کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ بھی وضاحت کر دوں کہ یہ اس پالیسی کا منطقی نتیجہ نہیں جو گزشتہ حکومت نے اپنائی تھی۔ یہ اس سیاسی خلفسار کا پیدا کردہ ہے جو ڈیڑھ دو سال سے اس ملک میں جاری ہے۔ میں اسحق ڈار کی بعض پالیسیوں پر اعتراض کرنا رہا ہوں مگر ایسا بھی نہیں کہ ناکردہ گناہوں کا بوجھ ان پر ڈال دیا جائے کہ رسم دنیا بھی ہے۔ موقع بھی ہے‘ دستور بھی ہے ہمیں اس وقت ہر کام کو سیاست بنا کر پیش کرنے کے بجائے سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے اور تحریک انصاف کے لیے تو یہ بہت ضروری ہے کہ وہ احتجاجی سیاست سے نکل کر عملی دنیا میں قدم رکھے۔ جو کچھ ہونا تھاوہ ہو گیا‘ اب جو چیلنج درپیش ہے‘ اسے دیکھا جائے۔