چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے دور ہیں حرص و ہوس سے تو کرم ہے اس کا دانہ رکھتے جو نظر میں تو کس دام کے تھے نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم سب کچھ عالم اخفا ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔اسی لئے ایک بے کلی سی تو رہتی ہے مگر یہ سب فطرت کے زیر اثر ہے۔ سعد پڑھنا پڑی ہم کو یہ کتاب ہستی۔ باب آغاز کے تھے جس کے نہ انجام کے تھے۔ پتہ نہیں کیوں میر کا ایک شعر میرا شامل حال رہا اور اس نے میرے لئے ایک فضا بنائے رکھی کہ شاید مرا مزاج تھا آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز۔وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے۔ یہی خیال سر پر چڑھ گیا کہ مت شکایت کرو زمانے کی۔یہ علامت ہے ہار جانے کی غالب بھی تو کمال تھا نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ بات میں کچھ اور کرنا چاہتا ہوں کہ انسان غرض مند ہو بھی تو لگنا نہیں چاہیے ساری خوبصورتی اور بانکپن ختم ہو کر رہ جاتا ہے وہی جو کہتے ہیں کہ جس چیز کی خواہش کرو پہلے اس کا استحقاق اپنے اندر پیدا کرو۔طلب بری چیز نہیں اس کا اظہار برا ہے۔ہو جو چاہت تو ٹپک پڑتی ہے خود آنکھوں سے، اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی۔ وہ جو کسی نے کہا تھا کہ سقراط کو کبھی بتانا نہیں پڑا کہ وہ سقراط ہے اور ارسطو کو بھی کسی کو اپنے بارے میں قائل کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔اس بات کو میں سیاست سے جوڑوں تو شاید موضوع ہی بے معنی ہو جائے وجہ اس کی یہ کہ زیادہ تر ہمارے ہاں موروثیت ہے یعنی خاندانی سیاست ہے جس نے دلیر لوگوں کو بھی محتاط اور موقع پسند بنا دیا موقع پرست میں نے جان بوجھ کر نہیں لکھا کچھ تو ہمارے نظام کا قصور ہے اور کچھ ڈکٹیٹر قسم کے سیاستدانوں کا۔ویسے تو یہ رویہ ہمارے سب کے اندر سرایت کر چکا ہے کہ مسجد کی کمیٹی میں بھی آپ کو چودھراہٹ نظر آئے گی۔ سیاست میں تو ہے ہی ساری دنیا داری اور جھوٹ کا کاروبار۔ یہاں دانش اور عقل کا گزر نہیں۔پنجابی محاورہ کتنا صادق آتا ہے کہ جس دی کوٹھی دانے اور اوہدے کملے وی سیانے۔ یعنی وہاں احمق بھی دانش بگھارتے ہیں۔ سیاست نام کے ساتھ چلتی ہے ادارے کی صورت میں نہیں۔ہمارے دیکھتے دیکھتے بھی تیسری نسل آ گئی ہے باقاعدہ ان کی انٹری کروائی جاتی ہے اور انکل سیاستدان باقاعدہ ان کے بچوں کو گارڈ آف آنر پیش کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ایک تو اس کے جانشین بھی لوگ خود ہی بن بیٹھے مگر میں اس پر روشنی نہیں ڈالوں گا۔میں تو کچھ اور کہنا چاہتا ہوں کہ اچھے لوگ کیوں آ گے نہیں لائے جاتے آگے وہی آتے ہیں جو پارٹی قائدین کے آگے آگے ہوتے ہیں وہ کسی ذی شعور کو آگے نہیں آنے دیتے۔ ویسے بھی جو صاحب بصیرت اور دانا بینا ہوتا ہے وہ کرائوڈ سے گھبراتا ہے اور اپنی عزت نفس کا خیال کرتا ہے قائدین کے سامنے کسی کو جرات نہیں کہ کوئی صحت مند تنقیدکر سکے یا کوئی صائب مشورہ دے سکے۔کم از کم اتنا تو ہونا چاہیے کہ سول آمریت ہی سہی مگر اچھے اور قابل لوگوں سے کام لے لیا جائے۔ مفتاح اور ڈار صاحب کا جھگڑا آپ کے سامنے ہے بہرحال نواز شریف کا سمدی ہونا معیار تو ہے۔ اس طرح ایک اور پڑھا لکھا اور سمجھدار شخص ایک سیاسی قائد سے ٹکٹ مانگ بیٹھا اتنی بڑی غلطی! رہنما نے تو خیر کچھ نہیں کہا کچھ اثبات میں سر بھی ہلا دیا مگر اس پہ غلطی متعلقہ لوگوں کو ہضم نہیں ہوئی۔ ہر طرف سے تیر برسنے لگے۔آصف شفیع کا شعر یاد آ گیا: دشت سے شہر میں کچھ سوچ کے آنا آصف زندگی بھر کی ریاضت پہ نہ پانی پڑ جائے ویسے ٹکٹ کا مطالبہ کوئی اتنا بڑا جرم بھی نہیں کہ لوگ اس طرح لٹھ لے کر پیچھے پڑ جائیں میں سمجھتا ہوں کہ ایسا حسد کے باعث ہوتا ہے کہ ایک شخص عوام میں شہرت رکھتا ہے تو اس کو سیاست میں بھی پذیرائی مل جائے لیکن پہلے والی بات زیادہ اہم ہے کہ یہ طلب علم کے وقار کے خلاف ہے: کیا ملا تجھ کو مدعا کر کے بات بھی کوئی التجا کر کے دیکھا جائے تو یہ بات جماعت اسلامی میں سرے سے ہے ہی نہیں کیونکہ ان کے منشور میں شامل ہے کہ کوئی اپنی خواہش کا اظہار نہیں کر سکتا کہ اسے ٹکٹ د ے دیا جائے۔دوسری بات یہ کہ پارٹی رہنما کے خلاف اپنی رائے دینا تو ہرگز دانشمندی نہیں اگر رائے دینی ہے تو ادھر ادھر سے پوچھ کر دیں کہ اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں اب تو آپ نے منہ کھولا نہیں کہ سوشل میڈیا پر طوفان آ جاتا ہے سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں لاکھوں اکائونٹس ہیں۔باقاعدہ ایک دوسرے کے ساتھ سنگت کر کے راگ الاپتے ہیں وہ جو اپنی طرف سے بڑی عاقلانہ اور بالغانہ رائے دیتا ہے‘سوشل میڈیا کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے اور پھر برس ہا برس کی بنائی ہوئی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔اب تو سوشل میڈیا سٹار وار کی طرح ہے۔ وہی جو میر نے کہا تھا لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا۔ہاں اگر آپ کو عوام کی خدمت کرنے کا شوق ہے تو پھر ٹکٹ کا حصول کیوں ضروری ہے۔آپ جس کسی کو بھی پسند کرتے ہیں ان کی تھنک ٹینک میں آ جائیں شارٹ کٹ تو ٹھیک نہیں۔دوسری بات یہ کہ اگر دنیاوی غرض نہیں تو پھر جماعت اسلامی میں آ کر کام کیا جا سکتا ہے اگر دنیا ہی مطلوب ہے تو دوسری بات میرے معزز قارئین پتہ نہیں میں اپنی بات سمجھا سکا ہوں یا نہیں کہنا میں یہ چاہتا تھا کہ آپ اگر عوام کے لئے کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں تو پرخلوص ہو کر کسی عہدہ وغیرہ کے بغیر آگے آئیں آپ کا کام آپ کا تعارف ہے ویسے اگر آپ سچ مچ کچھ اچھا کرنا چاہتے تو آپ اپنے حلقہ اثر میں رہ کر کریں۔ کچھ فرق نہیں پڑتا پیش نظر اگر اللہ کی رضا ہے تو ستے ای خیراں ہیں: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ