4 اپریل 1979ء کو ضیائی آمریت میں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو تخت دار پر لٹکا دیا گیا۔ ان کے جسد خاکی کو ان کے آبائی شہر لاڑکانہ پہنچایا، ہر طرف سخت پہرہ تھا، محترمہ بینظیر بھٹو اور مرحوم کی پہلی اہلیہ سمیت چند افراد کو ان کا آخری دیدار کرنے کی اجازت دی گئی۔ جلدی جلدی میں ذوالفقار علی بھٹو کا جنازہ پڑھوا کر انھیں سپرد خاک کردیا گیا۔ زندہ بھٹو سے خوفزدہ طالع آزما کو اس کی میت سے بھی شدید خوف تھا ۔ایک عوامی لیڈر، جسے قائد عوام کا خطاب دیا گیا، جس نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد ڈالی، جس نے امریکہ کو للکارا، دنیا بھر کے اسلامی ممالک کو یکجا کیا اسے رات کی تاریکی میں منوں مٹی تلے دفن کردیا گیا۔ دل پھر بھی نا بھر سکا تو تواتر سے گیارہ سال تک پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو کوڑے مارے جاتے رہے۔ کڑی سزائیں دی جاتی رہیں لیکن آخر کار بدقسمتی سے اس کے ساتھ بھی سامراجی طاقت نے وہی کیا جو اس سے بھٹو کے ساتھ کروایا گیا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ نے عدالتی قتل قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اس وقت کی فوجی حکومت کا عدلیہ پر بہت دباؤ تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق بھی کہتے ہیں کہ ان کی والد کی شہادت کے حوالے سے بہت ساری باتیں پوشیدہ ہیں، بہرحال ضیاء الحق سے نہ یہ کھیل شروع ہوا تھا نہ ختم ہوا لیکن بھٹو مرحوم کی پھانسی کے بعد ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کی کمان سنبھال لی، ایم آر ڈی کی تحریک سے لے کر اینٹی بھٹو ووٹ بینک کو کیش کروانے والی جماعتوں بالخصوص ن لیگ کے سامنے سیاسی محاذ میں جرات مندی سے ڈٹی رہیں۔ بھٹو کی لاکھ سیاسی مخالفت کی جاسکتی ہے مگر تسلیم کرنا ہوگا کہ انھوں نے عوام کو شعور دیا، وڈیروں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے خلاف عوام کو آواز دی ۔ ان کی شخصیت میں جاگیرداری کا عنصر بھی غالب رہا لیکن انھوں نے عوام کو بالادست طبقات کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات دی، روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا۔ بھٹو نے پیپلز پارٹی کو جتنی بڑی جماعت بنا دیا تھا، خود جتنے قد آور سیاسی رہنما بن گئے تھے، ان کی سیاسی وراثت کو برقرار رکھنا آسان کام نہیں تھا، بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی ضیائی آمریت ان سے خوفزدہ رہی۔ انتخابات میں بینظیر بھٹو کی شمولیت میں رضا مندی پر اسے ملتوی کرنے پر مجبور ہو جاتی رہی، تاہم بھٹو کی پھانسی سے پہلے اور اس کے بعد جس طرح محترمہ، انکی والدہ، دیگر اہلخانہ، عزیز و اقارب کو اذیت پہنچائی جاتی رہی، ایسے سخت ترین، گھٹن زدہ آمرانہ دور میں محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کی غلطی کا دختر بھٹو نے بعد ازاں اعتراف کیا مگر ان سارے مراحل نے انھیں ایک منجھی ہوئی سیاستدان اور سیاسی جماعت کا سربراہ بنا دیا تھا۔ مخترمہ بینظیر بھٹو دو مرتبہ ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں، وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں، انھوں نے ہر طرح کی سازشوں اور مشکلات کا سامنا کیا، لیکن اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی کی مقبولیت اور سیاسی جدوجہد پر آنچ نہ آنے دی۔ 27 دسمبر 2007 ء کو انھیں جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد راولپنڈی کے لیاقت باغ میں عوام کے جوشیلے نعروں کا جواب دیتے ہوئے شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے پیش نظر عام انتخابات کا التوا کردیا گیا، 18 فروری کو 2008 ء کو عام انتخابات ہوئے، پیپلز پارٹی کو ملک بھر سے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں لیکن دو تھائی اکثریت پوری کرنے کیلئے مخلوط حکومت قائم کی گئی، جس میں طے شدہ فارمولے کے تحت ن لیگ کو بھی وفاقی حکومت کا حصہ بنایا گیا اور پنجاب میں پیپلز پارٹی ن لیگ کی صوبائی کابینہ کا حصہ بن گئی۔ ن لیگ جلد ہی اس مخلوط وفاقی کابینہ سے سابق آمر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے معزول کیے گئے ججز کی بحالی نہ ہونے پر الگ ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری صدر مملکت بن گئے اور مخلوط حکومت چلانے کے چکر میں مفاہمت کی سیاست کے تحت "ایک زرداری سب پر بھاری" کے نعرے لگواتے رہے، جس سے پیپلز پارٹی کا عوامی سطح پر تشخص تہہ و بالا ہو کر رہ گیا۔ آصف علی زرداری کو ہر حال میں اقتدار عزیز تھا، سو پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی تمام جماعتوں کو مناتے مناتے ان سب کے کرتوت زرداری کے سرچڑھتے رہے، نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ 2013ء کے انتخابات سے پہلے اپنے ایک وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی عدالت سے نااہلی اور نواز شریف کے کالا کوٹ پہن کر منتخب وزیراعظم کیخلاف عدالت جانے کے باوجود پورے ملک کو علم تھا کہ آئندہ پیپلز پارٹی کسی صورت کامیاب نہیں ہوگی۔ نواز شریف قومی اسمبلی کے ممبر نہیں تھے اور سکون سے بیرون ملک کے دورے کرتے تھے، جس وجہ سے ن لیگ کو فرینڈلی اپوزیشن کہا جاتا تھا۔ نواز شریف 2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر کے عمران خان کی تحریک انصاف سمیت کئی جماعتوںکو چکما دے چکے تھے، بہرحال آصف علی زرداری کی اس مخلوط حکومت اور مفاہمت کے شوق نے پیپلز پارٹی کی سیاسی تنزلی کی بنیاد ڈال دی۔ وہ جماعت جس کیلئے ایک باپ اور پھر بیٹی نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زرداری نے پیپلز پارٹی کے ساتھ وہ سلوک کیا جو ضیاء الحق گیارہ سال میں نہ کر سکے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا سیاسی جنازہ نکال دیا۔ 2008 ء کے انتخابات کے بعد کے سارے سیاسی اقدامات کا جائزہ لے لیجئے اور فیصلہ کیجئے کہ کیا 9 اپریل 2022ء کے بعد اقتدار میں آنے والے پی ڈی ایم اتحاد کا حشر اس سے مختلف ہے؟ دو ضمنی انتخابات میں پنجاب میں ن لیگ, پی ٹی آئی کے ہاتھوں بری طرح پٹ چکی ہے۔ جے یو آئی کو کے پی کے میں بقا کی فکر لاحق ہے۔ سندھ اور وفاقی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے نام سے بھی لرزتی ہیں۔