ڈٹ رپورٹ2018-19 کے مطابق پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی میں 1.58 ارب سے زائد رقم کے غیر ضروری استعمال اور مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔2017 ء میں پنجاب حکومت کے عوام کو پٹواریوں کی کرپشن سے نجات دلانے کیلئے پنجاب لینڈ اتھارٹی کے قیام کے بعدعام آدمی کو فرد کی نقول اور انتقال اراضی میں قابل قدر حد تک سہولت میسر آئی ہے اور کسی حد تک پٹواریوں کی لوٹ مار کا رستہ بھی بند ہوا ۔مگر لینڈ ریکارڈ اور انتقال اراضی میں پٹواریوں کے کلیدی کردار کی وجہ سے کچھ ہی عرصہ بعد لینڈ ریکارڈ سنٹرز بالخصوص دیہی علاقوں میں زرعی اراضی کے معاملات میں لینڈ ریکارڈ سنٹرز کے اہلکاروں کی جانب سے رشوت کے ریٹ مقرر ہونے کی شکایات سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں۔ یہاں تک کہ لاہور کینٹ میں جعلی فرد پر اراضی کی منتقلی کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ لینڈ ریکارڈ کا عملہ پٹواری کی فیس کے نام پر سائلین سے بھتہ وصول کرنے لگا تھا لیکن اس کے باوجود بھی کسی حد تک شفافیت ضرور تھی۔ اب آڈٹ رپورٹ میں لینڈ ریکارڈ سنٹرز میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ خود مختار ادارے میں لوٹ مار کی اس سے بدترین مثال بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ 11 لاکھ 74 ہزار روپے کا جنریٹر میں ڈیزل ڈلوایا جائے اور اس کی رسیدیں تک نہ فراہم کی جائیں۔ بہتر ہو گا حکومت لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے معاملات میں شفافیت کو یقینی بنائے تاکہ عوام کی سہولت کیلئے قائم کئے گئے ادارے میں بدعنوانی کو پنپنے سے پہلے ختم کیا جا سکے۔