یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا کتنا وحشت ناک منظر تھا۔ عقل و خرد مائوف۔ اس طرح تو کوئی دشمن بھی حملہ آور نہیں ہوتا کہ بیماروں اور مریضوں کی زندگیاں چھین لے۔ لگتا تھا کہ ہندوئوں نے کوئی بلوہ کر دیا ہے۔ اب کسی کو امان نہیں اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آ رہا تھا کہ قانون جاننے والے اور لوگوں کو انصاف دلانے والے وکلا اس طرح پنجاب کارڈیالوجی پر ’’دن خون‘‘ ماریں گے۔ اسلام کے یہ ’’شاہین و مردان حق‘‘ نعرے لگاتے ہوئے کہ اب ڈاکٹروں کا بائی پاس ہو گا پی آئی سی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ مریضوں کے آکسیجن ماسک تک اتار دیں گے۔ انتقام کا ایسا جنون کہ انسان درندگی پر اتر آئے۔ چار مریض جان سے گزر گئے۔ ان کا قتل کس کے سر ہو گا؟ : میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں کہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے یہ بات اپنی جگہ درست کہ مسیحا بھی جان نکالنے والے ہی ہیں اور ان سے بھی کسی خیر کی توقع نہیں۔ میں نے ان کی ویڈیو بھی دیکھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں وکلا برادری کی تضحیک کی گئی اور اس کا ردعمل پنجاب کارڈیالوجی پر حملہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ویڈیو میں ایک ینگ ڈاکٹر ایک اکٹھ میں اپنی بہادری کے قصے بیان کر رہا ہے کہ وہ دو تھے اور وکلا گیارہ پھر وکلا کی بے بسی کی باتیں اور پھر وہ شعر بھی پڑھتا تھا’’وہ یہ کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا۔ اب وہ روتا ہے چپ نہیں ہوتا‘‘ یقینا وہ وکیلوں کو اکسانے والی باتیں کر رہا تھا۔ مگر یہ تو کسی کے تصور میں نہیں آ سکتا تھا کہ ایک احمق اور چھچھورے ڈاکٹر کی ناپسندیدہ باتوں کے ردعمل میں انسانی زندگیوں کو دائو پر لگا دیا جائے: وہ تشدد تھا الٰہی توبہ میں تو مجرم کی خطا بھول گیا اڑھائی سو کے قریب وکیل تھے جنہوں نے پنجاب کارڈیالوجی پر دھاوا بولا۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چند شرپسند عناصر نے وکیلوں کی وردیاں پہن لی تھیں۔ یہ ہونا ہی تھا کہ وکلا عرصے سے اس تشدد کے راستے پر چل رہے تھے۔ اس سے پیشتر وہ ایک جسٹس منصور علی شاہ کا حشر کر چکے۔اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ خاص طور پر نئے آنے والے وکیل اسی ڈگر پر گامزن تھے کہ وہ ایک جتھا اور گروہ بن چکے کہ وہ آئے دن کسی سائل کو پھینٹی لگا دیں یا کسی کو بھی نشانے پر رکھ لیں۔ یہ بھی صد فی صد درست کہ وہ بھی مافیاز میں سے ایک مافیا بن چکے جیسے سیاستدانوں کا مافیا تاجر ‘ اور دوسرے بھی ایسے ہی ہیں ابھی تو یہ طلباء یونین کو بحال کرنے جا رہے تھے۔ اللہ کی پناہ جتنے بھی مافیاز ہیں وہ ظلم کرتے ہیں تو مظلوم صرف عوام ہوتے ہیں۔اصل میں وکیلوں نے ثابت کیا ہے کہ ہمارا زوال پذیر معاشرہ تنزلی کی آخری سطح پر جا چکا ہے سنگ دلی کی انتہا ہے کہ آپ اپنی انا کی تسکیل کے لئے سب کچھ تہس نہس کر دیں۔ ایسے تو فلموں کے اندر بھی نہیں ہوتا ولن کوبھی ترس آ جاتا ہے۔ ڈاکٹر بھی اس میں مجرم ہیں کہ ان سے بھی مریض محفوظ نہیں کہ جب وہ ہڑتال پر ہوتے ہیں تو ان کی بلا سے کوئی ایڑھیاں رگ رگڑ کر مر جائے۔ وہ بھی دوائی مافیا سے مل کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں دیکھا جائے تو وکلا اور ڈاکٹر دونوں کس قدر تقدس کے حامل ہیں کہ ایک ناانصافی کے خلاف اور دوسرا بیماری کے خلاف۔ بہرحال اس موجود قضیے میں وکلا ان پر بازی لے گئے کہ وکلا برادری سر ہی نہیں جھکایا صرف انہیں شرمندہ ہی نہیں کیا بلکہ انہیں برباد کر دیا۔ میں سوشل میڈیا پر آئی ہوئی لوگوں کی آرا سے اتفاق نہیں کرتا کہ یہ لوگ افتخار چودھری کے دور میں بدمعاش بنے کہ ان کو اپنی طاقت کا اندازہ ہو گیا تھا میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تب جب یہ لوگ آمریت کے خلاف اٹھے ہیں تو ہم بھی ان کے ساتھ تھے ہم نے ان کے لئے بہت کچھ لکھا: کالے کوٹوں کے علم نکلیں گے اب کے کعبے سے صنم نکلیں گے تب تو لوگ ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے کہ وہ گو مشرف گو کا نعرہ لے کر اٹھے تھے۔ میں نے خود دیکھا کہ اس وقت کالے کوٹ کی اتنی توقیر ہوئی کہ بعض جگہ پر خوانچے والے نے بھی وکیل سے پیسے لینے سے انکار کر دیا وہ حق و صداقت کے علمبردار بن کر اٹھے تھے۔ عزت کو سنبھالنا عزت پانے سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے اعتماد اور طاقت تو حاصل کر لی مگر اس کا استعمال غلط انداز شروع کر دیا بس اسی کو لوگ وکیل گردی کہتے ہیں۔ وہ پاکستانیوں کی نظروں سے گر گئے ہیں وہ صرف ڈاکٹروں تک ہی رہتے تو شاید وہ اتنے مجرم نہ ٹھہرائے جاتے وہ تو بے گناہ مریضوں کے قاتل بن گئے۔ اب رسوائی کا یہ داغ حتیٰ کہ کالے رنگ پر بھی نمایاں ہے حالانکہ یہاں تو داغ چھپ جاتے ہیں۔ اس حادثہ سے یہ بات بھی عیاں ہو گئی ہے کہ پنجاب میں کوئی لا اینڈ آرڈر نہیں ہے۔ جب پولیس کو علم تھا کہ وکلا اس مشن پر ہیں اور ان کافرض بنتا تھا کہ ان کی راہ میں دیوار بنتی۔ اگر ان میں اتنی سکت نہیں تھی تو پہلے ہی رینجرز کی خدمات حاصل کر لیتے۔ اب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے وہی روایتی رپورٹ طلب کر لی ہے یہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ایک ہی شخص کے دو عہدے محسوس ہوتے ہیں۔ پنجاب کو خود مختار حاکم دیا جائے تو شاید کچھ بدل جائے۔ اب ہوتا کیا ہے بڑھکیں ‘ دعوے اور پھر خاموشی ‘ ساہیوال کا واقعہ اس کی نہ بھولنے والی مثال ہے۔ پھر خیال آتا ہے کہ وہ امیر محمد خاں یعنی نواب آف کالا باغ والا انداز ہی بہتر تھا۔ ’’ڈنڈا پیر اے بگڑے تگڑیاں دا‘‘ اب بتائیے اور انارکی کس کو کہتے ہیں۔ دل دہلا دینے والے مناظر پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ایک الگ ایشو وکلا کی یلغار اور پھر نعرے ’’تمہیں گھس کر ماریں گے‘‘ سٹنٹ ڈالیں گے وغیرہ وغیرہ مریض کارڈیالوجی میں سہمے سہمے پھرتے تھے کوئی بھی وہاں محفوظ نہیں تھا اور تو اور طاقت کا جادوسر چڑھ کر بول رہا تھا۔ فیاض الحسن چوہان پر تشدد کیا گیا حالانکہ وہ بیچ بچائو کروانے آئے تھے۔ میڈیا والوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یاسمین راشد بھی گھیرے میں آ گئیں۔ اتنا غصہ ایسا انتقام کہ بندہ پاگل ہی ہو جائے پھر ایک نہیں دو اڑھائی سو عقل و شعور کھو بیٹھیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس سوموٹو لے مگر اس سے بھی کیا بنے گا۔ ہمارا معاشرہ ہی برباد ہو چکا اب ہمارا اللہ ہی حافظ ہے: شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا کہا جاتا ہے کہ پاکستان بنانے والا بھی تو وکیل تھا تب تو پھر قائد اعظم کی روح بہت برے حال میں ہو گی۔ وکلا تحریک میں تو نعرے بھی لگائے جاتے تھے کہ قائد نے ملک بنایا تھا ہم اس کو بچائیں گے۔ مگر آپ تو اسے برباد کرنے پر تل گئے ہیں۔ آپ تو وہ کچھ کر چکے جس کا کوئی کفارہ بھی نہیں۔ شرمندگی سے بھی آگے کی کوئی چیز ’’دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک‘‘ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق ہمارے دوست شوکت فہمی نے دو شعر بھیجے ہیں: سب آن بسے ہیں بستی میں جنگل میں درندہ کوئی نہیں اس شہر میں کون نہیں رسوا لیکن شرمندہ کوئی نہیں