بلاول بھٹو زرداری پنجاب میں اپنی سات نشستوں کے ساتھ حکومت کا تختہ الٹنے آئے ہیں۔ ان کی اتالیق کہا کرتی ہیں جمہوریت ڈیمانڈ کا نام ہے۔ ایک زعم ہے شاید جو حفیظ شیخ کے مقابل یوسف رضا گیلانی کی جیت نے پیدا کر دیا ہے۔ سوچا جارہا ہے کہ تحریک انصاف اپنے کارکنوں کی حمایت کھو بیٹھی‘ اتحادی ناراض ہیں‘ اپنے اراکین اسمبلی ناخوش ہیں‘ اس لیے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ کوئی چاہے توسینٹ اپ سیٹ کا کریڈٹ آصف زرداری یا مریم نواز کو دے سکتا ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ ایسے کریڈٹ آصف علی زرداری کو بھاری ثابت کرنے کے لیے کہاں سے جاری ہوتے ہیں۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ سات نشستوں والی پیپلز پارٹی پنجاب حکومت بدلنے کے لیے کیا پی ڈی ایم کی دوسری جماعتوں کی قائد بنے گی۔ پنجاب حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اگر کسی جماعت کے پاس سب سے زیادہ اراکین ہیں تو وہ مسلم لیگ ن ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما حمزہ شہباز لگ بھگ ڈیڑھ برس نیب کی حراست میں رہ کر ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ ان کے والد بزرگوار شہبازشریف ابھی جیل سے باہر نہیں آنا چاہتے۔ ان کا خیال ہے کہ پارٹی کے مستقبل کا تعین کرنے والی قوتوں کو اگر ان کے علاوہ کسی سے بات کرنے میں دلچسپی ہے تو وہ اپنا شوق پورا کرلیں۔ مسلم لیگ نون کو مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کے علاوہ دو تین ووٹ اضافی مل سکتے ہیں لیکناس سے زیادہ ووٹوں کی کمی پوری کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔ دوسری صورت میں مسلم لیگ قائداعظم کو تعاون پر آمادہ کرنا ہوگا۔ مسلم لیگ ق پنجاب میں ایک اہم سیاسی حقیقت بن کر ابھر رہی ہے‘ ق لیگ کی قیادت چودھری شجاعت اور چودھری پرویزالٰہی کرتے ہیں۔ دونوں بھائیوںکی خوبی یہ ہے کہ رابطہ سب سے رہتا ہے‘ شادی مرگ پر کسی کو تنہا نہیں رہنے دیتے لیکن اپنی سیاسی حکمت عملی پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ سماجی رکھ رکھائو اور رابطے بحال رکھنا پنجابی ثقافت کا عکس اور ایک جمہوری ماڈل ہے۔ پنجاب سیاسی لحاظ سے اس وقت تمام صوبوں میں سب سے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ دو ہفتے قبل پنجاب اسمبلی نے جس پرامن طریقے سے متناسب نمائندگی کا اصول پیش نظر رکھ کر سینٹ کے 11 اراکین کا انتخاب کیا اس سے باقی صوبے محروم رہے بلکہ یوں کہا جائے توبے جانہ ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن نے جس شکل میں اپنے اختلافات کو جمہوریت کے سامنے سرنڈر کردیا وہ لائق تحسین ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور اپوزیشن رہنمائوں کا کردار یقینا قابل داد ہوگا لیکن وہ مرکز جو سیاسی رواداری کو پھیلا رہا ہے سپیکر چودھری پرویزالٰہی کی کرسی ہے۔ ایک توازن ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جمہوریت میں سب کو اپنی حدود میں رہ کر کیسے کام کرنا ہے۔ سیاسی دانشمند چودھری برادران کے پاس بلاول کے اس احسان جتلانے کا جواب تھا کہ آصف زرداری نے انہیں ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ دیا۔ انہوں نے یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ آصف زرداری کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ بلاول نے چودھری پرویزالٰہی کے ساتھ مشترکہ پریس ٹاک کا ارادہ کیا تو چودھری پرویزالٰہی نے پہلے ہی میڈیا کے نمائندوں کو بتا دیا کہ ہم نے جناب بلاول بھٹو کو بتا دیا ہے کہ تحریک انصاف کا ساتھ دیں گے۔ چودھری برادران کی دانشمندی نے پنجاب کو انتشاری سیاست سے بچا لیا ہے۔ اٹھارویں صدی میں مریضوں کی دھڑکن سننے کے لیے ڈاکٹر عجیب و غریب طریقہ اختیار کرتے۔ مریضوں کو بالائی لباس اتارنے کو کہا جاتا اور ڈاکٹر مریض کے سینے پر کان رکھ دیتا۔ خواتین مریضوں کی بابت یہ طریقہ بڑا معیوب ہوتا لیکن متبادل نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو یہ بے پردگی برداشت کرنا پڑتی۔ پھر پیرس میں رہنے والے مشہور معالج ڈاکٹر Rene Laenne نے خواتین کو اس شرمندگی سے بچانے پر غور شروع کیا۔ ڈاکٹر رینے نے کاغذ کا ایک ٹکڑا رول کی شکل میں لپیٹا اور معائنہ کے لیے آنے والی خاتون کے سینے پر رکھ دیا۔ اسے دل کی دھڑکن اچھی طرح سنائی دی۔ ڈاکٹر رینے نے تجربہ جاری رکھا اور 1816ء میں دستی سلنڈر نما ایک آلہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنی ایجاد کا نام سٹیتھو سکوپ رکھا۔ 1826ء میں ڈاکٹر رینے کا انتقال ہوگیا۔ سٹیتھو سکوپ کی مدد سے اس کے بھتیجے نے پتہ چلایا کہ رینے کو ٹی بی کا مرض تھا‘ اس کارآمد آلے کی شکل آج بدل چکی ہے۔ بہت سے جائزوں سے پتہ چلا کہ ڈاکٹر کے پاس سٹیتھو سکوپ ہو تو مریض زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہے۔ ڈاکٹروں کے روزمرہ کام میں زیادہ تر ایسے مریض آتے ہیں جن سے بالمشافہ ملا جاتا ہے۔ کئی بار مریض کمپیوٹر سکرین پر نمودار ہوتا ہے‘ کئی ایسی ویب سائٹس بن چکی ہیں جو طبی مشورہ دیتی ہیں‘ پاکستان میں ایک مشہور لیبارٹری نے آن لائن ڈاکٹروں کی سہولت فراہم کر رکھی ہے۔ صحت کی خدمات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مریض اپنے معالج پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جب لوگ اپنی جسمانی و نفسیاتی صحت کے متعلق فکر مند ہوں تو وہ ڈاکٹر سے مشورہ کرتے ہیں‘ مریض جب ڈاکٹروں سے بالمشافہ ملتا ہے تو اس کی بصارت‘ حس سماعت‘ حس لمس‘ سونگھنے کی حس اور حس ذائقہ کا معائنہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اور مریض ایک کمرے میں نہ بھی ہوں تو آن لائن معائنے میں ان چیزوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ اہم بات یہ کہ مریض ڈاکٹر پر اعتماد کرتا ہے۔ غنیمت ہے کہ منہ سے جھاگ اڑاتے اور ایمبولینس پر مخالفین کو گھر بھیجنے کی باتیں کرنے والوں سے زیادہ موثر اور بردبار رہنما پنجاب میںموجود ہیں۔ یہ سیاست کا سٹیتھو سکوپ ہیں‘ آصف زرداری نے پانچ سال ان کی مدد سے پورے کئے اب یہ سٹیتھو سکوپ عمران خان کے پاس ہے تو مریضوں کو اطمینان ہے کہ سیاسی امراض نقصان نہیں کر پائیں گے ۔