حمیرا چنا نے تو کچھ برس پہلے گایا: چیت چڑھیا تے تینوں اساں تکیا شاہ حسین صدیوں پہلے چیتر کے رنگوں کے مداح ہوئے۔ اردو میں چیت اور پنجابی میں چیتر کا مہینہ کیا ہے؟ چیت پاکستان اور بھارت کے باشندوں کے دیسی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ لگ بھگ چار ہزار برس ہوتے ہیں راجا بکرما جیت نے یہ کیلنڈر تیار کروایا اسی لئے اسے بکرمی کیلنڈر کہتے ہیں۔ چیت کی آج پہلی تاریخ ہے۔ کیا اعلیٰ دماغ لوگ تھے جنہوں نے ہزاروں برس قبل ایسا کیلنڈر تیار کیا جس کی موسمی پیشگوئی آج بھی درست ہے۔ اس کیلنڈر میں پوہ ماگھ شدید سردی کے مہینے ہیں۔ اب بھی ان مہینوں میں یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں۔ ہاڑ اور جیٹھ کے مہینوں میں گرمی عروج پر ہوتی ہے۔ دو محبوب مہینے چیتر(چیت) اور ساون ہیں۔ ایک میں بہاریں زمین کے صدقے واری جا رہی ہوتی ہیں اور دوسرے میں بارش۔پنجاب ازل سے ایک زرعی معاشرے کا حصہ رہا ہے۔ زرخیز زمینیں‘ محنتی لوگ اور ہر نوع کا موسم میسر ہے۔ پورے برصغیر میں ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں خود کفالت کے قدرتی وسائل اس قدر ہوں۔ شاید اسی لئے حضرت مجدد الف ثانی نے پنجاب کے دل لاہور کو قطب الارشاد کہا تھا‘ یعنی جو علم‘ ہنر اور شخص لاہور میں مقبول ہو گیا اسے پوری دنیا میں پذیرائی ملے گی۔ بارہ دروازوں کی کچی فصیل کئی بار پکی ہوئی‘ چھوٹا سا قلعہ شاہی قلعہ بن گیا۔ پانچ دریا تھے۔ پورے پنجاب کو سیراب کرنے کے لئے کافی۔ ان دریاوں کے کنارے محبت کی داستانیں لکھی گئیں۔ راوی دے پرلے کنڈھے وے مترا وسدا اے دل دا چور …… لنگھ آ جا پتن چناں دا یار پنجاب میں آج پنجابی اقلیت بن چکے ہیں۔ ان فراخ دلوں نے افغانیوں‘ ایرانیوں‘ ترکمانوں‘ ازبکوں‘ بلوچوں کے لئے ہمیشہ دروازے کھلے رکھے۔ یہ الگ بات کہ کچھ نے ان کے اعتبار کو لوٹا‘ بہت سے پنجاب اور پنجابیوں کی روایات اور رہن سہن سے متاثر ہو کر یہیں رہ گئے۔ پنجاب کی ثقافت دنیا کی طاقتور ترین علاقائی ثقافتوں میں سے ایک ہے۔ پنجابی گیت ہل چلاتے ہالیوں کے بیل روک دیتے ہیں‘ بھنگڑا دنیا کا مقبول ترین میوزک اور رقص ہے۔ فلم اردو ہو یا ہندی اس میں پنجابی یا بنگالی ثقافت کے اجزا نہ ہوں تو مقبول نہیں ہوتی۔ پنجاب میں پہلی چیت کو یوم ثقافت منایا جا رہا ہے۔ سرکاری سطح پر پنجابی ثقافت کے لئے دن کا اہتمام لائق ستائش ہے لیکن پنجاب میں پنجابیوں کو اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش ہو گیا ہے۔ اس کے لئے حکومت کو کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ایک منظم انداز میں پنجابی سے حسد کرنے والے متعصب گروہوں نے بابا فرید‘ شاہ حسین‘ بلھے شاہ‘ وارث شاہ اور سلطان باہو کی زبان کی توہین شروع کر رکھی ہے۔کراچی میں جس قدر مزاح کے نام پر پرائیویٹ پروڈکشن میں پھکڑ ڈرامے بن رہے ہیں ان کا مزاحیہ کردار ہمیشہ پنجابی ہو گا۔ پنجاب میں انگریزی‘ ترکی‘ فرانسیسی اور چینی زبان پڑھانے والے اداروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ پنجابی کی تحریروں اور کتابوں سے نوجوانوں کو دور کر دیا گیا ہے۔ تعلیمی پالیسی کی بات ہو یا تھیٹر‘ ڈرامہ اور موسیقی سے متعلق اداروں کی‘ وہاں ہمیشہ وہ لوگ اہم ہوتے ہیں جو پنجاب اور اس کی ثقافت سے ناواقف ہوں‘ جو اب بھی اپنے ان اجداد کے ساتھ ثقافتی طور پر جڑے ہیں جو عشروں یا صدیوں پہلے پنجاب آئے تھے۔ پنجاب میں خطے کی سب سے توانا ثقافت رہتی ہے۔ اس ثقافت نے پنجابی عورت کو صدیوں پہلے وہ سماجی آزادی اور احترام دیا جس کی تمنا میں دوسری حقیر بن جاتی ہیں۔ پنجاب اور پنجابیوں کے متعلق کئی مغالطے نیم دانشورانہ حلقوں میں زیر بحث رہتے ہیں۔ ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ضرور انتظام ہونا چاہیے۔ میلے کی روایت کی سرپرستی ہونی چاہیے‘ لوک فنکاروں کا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ پنجابی تحریر و تقریر کے مواقع کا دروازہ کھلنا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر فیاض چوہان انٹرنیشنل پنجابی لٹریری فیسٹیول کا انتظام کر دیں۔زمین کی بالائی پرت کا ٹھنڈا جسم سورج کے لمس سے بیدار ہونے لگتا ہے۔ مٹی کی بکل مارے‘ دم سادھے پڑے بیج کو پسینہ آنے لگتا ہے‘ خول کی شال اتار پھینکتا ہے‘ نرم نرم سبز بانہیں بلند کرتا ہے‘ پھر سربلند ہونے لگتا ہے۔ نازک وجود زمین سے باہر نکل آتا ہے۔ پاس ہی توت کے درخت کی ٹنڈ منڈ شاخوں پر نئی آنکھیں بننے لگتی ہیں۔ تھوڑے دن بعد یہ آنکھیں کھلتی ہیں تو کٹائو والے نئے پتے نمودار ہو جاتے ہیں۔ گلاب‘ چنبیلی ‘ گل خیرا‘ گل اشرفی ‘ وربینا‘ پٹونیہ اور انٹرانم سے یہ سبزے کے نومولود پتوں کی تعریف کب برداشت ہوتی ہے۔ کلیاں بن کر کیاریوں میں رنگ بھر دیتے ہیں۔ ہوا میں ٹھنڈک کا زور حدت کی حکمرانی کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ ہوا نئے موسم کا استقبال کرنے کو نکلتی ہے اور خوشبوئوں کو ہم قدم کرتی ہے۔ پرندوں کی آواز موسیقی بن کر سارے چمن کو مسحور کر دیتی ہے۔تاریخ ہمیں اس مقام پر لے آئی ہے جہاں پنجاب کو ایک بار پھر اپنے کلچر کو دنیا کے سامنے روشناس کرانا ہے۔اس کے درخت اور پرندے واپس لانا ہیں۔ معاشرے سفاک بن جاتے ہیں یا پھر مشین کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ثقافت ان کو نرم دل کرتی ہے اور مشینوں میں انسانی احساس بھرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ پھیل رہا ہے۔ اس پھیلائو کے ساتھ ہمارے رویے‘ ہماری اقدار اور ہماری سوچ بھی دوسروں تک پہنچ رہی ہے۔ اس پھیلائو میں اگر ہماری اپنی ثقافتی اقدار شامل نہ ہوئیں۔ ہماری تاریخ‘ ہمارے موسم‘ ہمارے گیت‘ ہمارے کھانے ‘ہماری داستانیں اور ہمارے روزگار کی نشانیاں نہ ہوں تو ہمارا وجود مغربی ثقافتیں بے نشان کر دیں گی۔