شہر اقتدار کے ایک دانشور کالم نگار نے چند روز پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ پنجابی فطرتاً کوفی ہیں۔ یہ دشنام طرازی اور غلط بیانی ہے۔ دوچار ضمیر فروشوں کو چھوڑ کر پنجابی من حیث القوم فطرتاً کوفی نہیں حسینی ہیں۔ فاضل کالم نگار سابق حاکم پنجاب راجہ رنجیت سنگھ کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ ہمارا قائد راجہ رنجیب سنگھ نہیں بلکہ اس غاصب پنجاب کے خلاف علم جہاد بلند کرنے والے رائے احمد خان کھرل ہیں۔ پنجابیوں کو احمد خان کھرل پر فخر ہے۔ رائے احمد خان کھرل ہندوستان میں 1857ء کی جنگ آزادی کا بہادر سپوت تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی سے تین چار برس قبل ہی اس کی تیاری شروع ہو گئی تھی۔ 1857ء میں ہندوستان کے کئی مقامات پرانگریزوں کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی۔ اس سے پہلے ہی احمد خان کھرل نے انگریزوں کیخلاف ایک بہت بڑا لشکر تیار کرلیا تھا۔ جب مئی 1857ء میں گوگیرہ، موجودہ اوکاڑہ کے قریب انگریز راج کے خلاف پہلی گولی چلی تو گوگیرہ کے اسسٹنٹ کمشنر برکلے نے رائے احمد خان کھرل کو اپنے دفتر بلایا۔ اس سے کہا کہ وہ اپنے لوگ اور گھوڑے جنگ آزادی کے نام پر بغاوت کرنے والے کے خلاف لڑنے کے لیے فراہم کرے۔ اس وقت کی سپرپاور کے نمائندے برکلے کے سامنے رائے احمد خان کھرل پنجابی نے جو جواب دیا وہ تاریخ کی کتابوں میں سنہری حروف سے لکھا گیا۔ احمد خان کھرل نے کہا کہ کھرل بیوی، گھوڑا اور زمین کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے۔ برکلے ایک غلام قوم کے اس حریت پسند پنجابی کا یہ منہ توڑ جواب سن کر بہت غضبناک ہوا۔ ایک ہفتے کے بعد برکلے نے کھرل قوم کے بہت سے معصوم مردوں، عورتوں او ربچوں کو گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں بند کردیا۔ ایک ہفتے کے بعد احمد خان کھرل ہندوستان کی تحریک آزادی کا ایک انتہائی خطرناک مزاحمت کار کی حیثیت سے مشہور ہوگیا۔ احمد خان کھرل نے اپنے جان نثار ساتھیوں سمیت گوگیرہ جیل پر حملہ کیا اور تمام قیدیوں کو آزاد کرالیا۔ اس کے بعد تاریخ انگریزوں کے شدید مظالم اور رائے احمد خان کھرل کی مجاہدانہ کارروائیوں کی تفصیل سے بھری پڑی ہے۔ بالآخر انگریزوں نے دھوکے سے رائے احمد خان کھرل کو عین حالت نماز میں شہید کردیا۔ فاضل کالم نگار لکھتے ہیں کہ ’’ہم طاقتوروں کے ساتھ لڑتے نہیں اور ہم سچوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ برصغیر پاک و ہند میں پنجابیوں نے شروع سے ہی اپنے پیغمبر آخرالزمان جناب محمد مصطفی ﷺ کی تقلید میں رنگ و نسل اور زمین و زباں کے جملہ تعصبات کو اپنے پائوں تلے روند ڈالا تھا۔ فاضل کالم نگار نے کس قدر لاعلمی کا ثبوت دیا۔ ہم پنجابی ہمیشہ سچوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے وقت کے سب سے سچے آدمی کہ جس کے دشمن بھی اس کی سچائی کی قسم کھانے کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ہم محمد علی جناح ؒ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے اور برطانوی راج کے خلاف جنگ آزادی لڑنے اور مسلمانان ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن لینے کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ ہم اس دور کی سب سے بڑی طاقت کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ پنجابی نہیں گجراتی تھے۔ اپنے دور کے بلکہ موجودہ دور کے بھی سب سے بڑے شاعر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ایک پنجابی تھے مگر انہوں نے بھی یہ قبائلی، جغرافیائی اور لسانی عصبیتیں اپنے قریب نہ پھٹکنے دی تھیں اور انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تو رانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی بتانِ رنگ و خوں کو توڑنے والے پنجابی علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی نگاہ میں اس وقت مسلمانان ہند کی قیادت و سیادت کے لیے سب سے معزز وموزوں شخصیت ایک غیر پنجابی محمد علی جناح ٹھہرے۔ انہوں نے بااصرار خط پر خط لکھ کر اس غیر پنجابی قائد کو ہندوستان بلایا۔ ایک پنجابی کا یہ حسن انتخاب ساری ملت اسلامیہ کے لیے ایک عظیم نعمت ثابت ہوا۔ پہلے 1940ء میں مسلمانان ہند کا عظیم الشان تاریخی اجلاس کسی اور شہر نہیں پنجابیوں کے شہر لاہور میں منعقد ہوا اور پھر صرف سات برس کے عرصے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے نمودار ہوئی۔ پنجابی ہی تحریک پاکستان کا ہراول دستہ تھے۔ فاضل کالم نگار مزید لکھتے ہیں کہ ’’ہم‘‘ میں یعنی پنجابیوں میں کھڑے ہونے کے جنیزہی نہیں۔‘‘ جب 1958ء کے مارشل لاء کے بعد اس ملک میں جمہوریت کا چراغ گل کردیا گیا تھا۔ اس وقت قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیر محترمہ فاطمہ جناح شب کی سیاہی کو پسیدہ سحر میں بدلنے کے لیے جرأت و شجاعت کے ساتھ آگے بڑھیں تو اہل پنجاب نے سچ کا ساتھ دینے کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کردیئے اور محترمہ فاطمہ جناح کا 1964ء کے صدارتی انتخاب میں بھرپور ساتھ دیا اور ان کی کامیابی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ کالم نگار لکھتے ہیں کہ ’’سندھ نے آج تک بھٹو کو مرنے نہیں دیا۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کو بھٹو کس نے بنایا؟ ان کی پارٹی شہر لاہور میں وجود میں آئی۔ ڈاکٹر مبشر اور پیپلزپارٹی کے کئی دیگر بانی ارکان پنجابی تھے۔ اس وقت ایوب خان کا اقتدار نصف النہار پر تھا اور ذوالفقار علی بھٹوایک سیاست دان تھے جسے معلوم نہ تھا کہ کل اس کی پارٹی کامیاب ہو گی یا ناکامی سے دوچار ہوگی۔ یہ ڈاکٹر مبشر حسن،بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد، مرحوم حنیف رامے جیسے سینئر اور جہانگیر بدر جیسے نوجوان پنجابی قائدین تھے جنہوں نے مصیبت کی اس گھڑی میں ذوالفقار علی بھٹو کو سہارا دیا وگرنہ اس وقت بھٹو تو ایک ’’دیوار خستگی‘‘ سے بڑھ کر کچھ نہ تھے اور بقول اسلم انصاری بھٹو صاحب کی حالت یہ تھی کہ دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے پھر یہ طعنہ کہ پنجابی کھڑے نہیں ہوتے۔ پنجابی ہی تو کھڑے ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 1970ء کے انتخابات میں مزاحمت، جمہوریت اور جرأت کا استعارہ تھے اور یہی وہ صفات تھیں کہ جو ہمیشہ پنجابیوں کے لیے باعث کشش ہوتی ہیں مگر جب 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو جمہوریت کا نہیں فیوڈل ازم کا سمبل بن گئے تو پنجابیوں کے لیے کشش بہت کم ہو گئی مگر اس کے باوجود پنجابیوں نے پرانی محبت کی لاج رکھتے ہوئے بھٹو کی بیٹی کو اقتدار کی کرسی پر بٹھایا اور پھر بھٹو کے داماد کو بھی اقتدار پر براجمان کرا دیا۔ پرکشش جذباتی نعرہ بھی تو ایک پنجابی ایڈیٹر و کالم نگار عباس اطہر کی دین ہے کہ ’’بھٹو دی بیٹی آئی جے‘‘۔ آج جو بھٹو کے ورثا سندھ کے ہاریوں اور باسیوں سے حیوانوں جیسا سلوک کر رہے ہیں اورانہیں زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھ رہے ہیں تو اس ذلت آمیز سلوک کو برداشت کرنا اور استحصالی قوتوں کو ووٹ دینا کون سی عقل مندی ہے۔ یہ تذلیل آدمیت ہے بھٹو نوازی نہیں۔ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ شہر اقتدار کے اینکر و کالم نگار نے لاعلمی سے ہی نہیں غلط بیانی سے بھی کام لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’پنجابی نوازشریف کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔‘‘ پنجابی نوازشریف کیساتھ گزشتہ تیس بتیس برس سے کھڑے تھے۔ انہوں نے ہر طرح گرم سرد حالات میں میاں نوازشریف کا ساتھ دیا۔ جن دنوں جنرل پرویز مشرف کے فوجی انقلاب کے بعد میاں نوازشریف بکتر بند گاڑیوں میں آ کر دہشت گردی کی عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے تھے وہ میاں صاحب کی طویل سیاسی زندگی کا نقطہ عروج تھا مگر جب میاں صاحب نے درپردہ بہت سی کوششوں کے بعد جنرل پرویز مشرف کیساتھ دس سالہ ’’جلاوطنی‘‘ کا خفیہ معاہدہ کرلیا اس دن سے میاں صاحب کا زوال شروع ہو گیا جو ہر گزرنے والے دن کے ساتھ تیزی سے بڑھتا گیا اور چند روز پہلے میاں صاحب نے بھارت غیر ریاستی مداخلت کار بھیجنے کا اعتراف کیا وہ ان کے سیاسی انحطاط کی انتہا تھی۔ آپ اسے میاں صاحب کا سیاسی تحت اثریٰ بھی کہہ سکتے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ میاں صاحب کے طرفدار دانشوروں اور کالم نگاروں کے ترکش میں اب کوئی تیر باقی نہیں بچا، اس لیے وہ طنز و طعنہ اور دشنام طرازی پر اتر آئے ہیں۔ ایک بار پھر یاد دلادوں کہ فاضل کالم نگار کہتے ہیں کہ پنجابی نوازشریف کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ کیا پنجابی کوئی ڈھور ڈنگر ہیں کہ وہ میاں صاحب کو سنیں کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ایشور، بھگوان، گاڈ اور خدا سب ایک ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں اور اس کے باوجود تالیاں بجائیں۔ کیا پنجابی بے شعور ہیں کہ میاں صاحب وطن مخالف بیان دیں کہ جس سے خود ان کی پارٹی تتر بتر ہو جائے اور ان کے قائدین مضطرب و پریشان ہوں اور پنجابی میاں صاحب سے جواب طلب کرنے کی بجائے ان کے ساتھ کھڑے رہیں۔ میاں صاحب کے تمام ہمدرد ایک ہی طرح کی باتیں لکھتے یا کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ میاں نوازشریف بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتے تھے۔ مجھے یہ بتائیں کہ وزیراعظم لیاقت علی خان سے لے کر میاں نوازشریف تک پاکستان کے تمام سول و ملٹری حکام پڑوسی ملک کے ساتھ پرامن تعلقات ہی چاہتے تھے مگر جب بھارت ہٹ دھرمی کی انتہا کردیتا تو معاملہ تنگ آمد بجنگ آمد تک جا پہنچتا ہے۔ پنجابیوں کی تاریخ جدید گواہ ہے کہ اس دھرتی پر رائے احمد خان کھرل سے لے کر قائداعظم محمد علی جناح تک جس جس نے شیوہ حسینی کا مظاہرہ کیا پنجابیوں نے اس پر دل و جان لڑا دیئے۔ اسی لیے توتاریخ کی یہی پکار ہے کہ پنجابی کوفی نہیں حسینی ہیں۔