سب سے پہلے احمد مشتاق کا ایک خوبصورت شہر: میں نے دل سے کہا ہم جھیل گئے ہجر کا دن دل نے چپکے سے کہا شام تو ہو لینے دو بہرحال نازک مزاج لوگوں سے تو وصال بھی نہیں جھیلا جاتا۔ دکھ کوئی بھی ہو جھیلتے ہی بنتی ہے۔ دوست ہو‘ پڑوسی ہو یا معاشرہ کہیں نہ کہیں آپ کے صبر اور ضبط کا امتحان آ ہی جاتا ہے۔ خاص طور پر اچھا پڑوسی اللہ کی نعمت ہے۔ میرے دائیں بائیں بہت ہی اچھے پڑوسی ہیں مگر حملہ تو عقب کی جانب سے۔ میرے گھر کے پچھواڑے میں ملحقہ دو منزلہ کوٹھی ہے۔ رات کیا ہوا کہ تیز آواز نے مجھے سونے نہ دیا۔ سردیوں کی راتیں تو بڑی سنسان اور لمبی ہوتی ہیں۔ بعض اوقات تو چپ بڑھ جائے تو سناٹا گونجنے لگتا ہے۔ یہ آواز مسلسل آ رہی تھی۔ تنگ آ کر میں باہر نکلا‘ دائیں بائیں جائزہ لیا‘ آواز مسلسل آتی گئی‘ میں گھر کے عقب میں آیا تو پتہ چلا کہ پیچھے خالی چھوڑی جگہ پر پوری سپیڈ سے پنکھا چل رہا ہے۔ یقینا وہ گھر والوں کے نوٹس میں نہیں آ رہا۔ اب کون انہیں جا کر بتائے کہ پنکھا تھک جائے گا۔ یہ اذیت صبح تک رہی۔ تاہم ایک تسلی ہو گئی کہ پراسرار آواز پنکھے کی تھی۔ انہی پڑوسیوں سے ہمیں اس سے بھی بڑی شکایت جو ہم اب تک لب پر نہیں لا سکے اور نہ انہیں پہنچا سکے کہ ان کے ہاں ایک واشنگ مشین چلتی ہے اور چلتی بھی تقریباً روزانہ ہے کہ شاید فیملی بڑی ہے یا زیادہ ہی صفائی پسند ہے۔ ان کی خوبیاں اپنی جگہ مگر اس دھلائی مشین کی آواز کافی اونچی اور کریہہ ہے۔ بچوں کے لئے پڑھنا لکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بیگم نے اوپر دیوار سے سفارتی رابطہ کر کے پڑوسن سے دبے لفظوں میں شکایت کی تو پتہ چلا کہ یہ عام واشنگ مشین نہیں بلکہ خاص طور پر ٹھیکے پر ذرا بڑی بنائی ہے تاکہ زیادہ کپڑے آسانی سے دھو سکے۔ اس آسانی نے ہمارے لئے تو مشکل پیدا کر دی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ چراغ تلے اندھیرے کے مترادف ان کو مشین کی آواز نہیں آتی۔ یا پھر وہ اس آواز کے عادی ہو چکے ہیں بلکہ رسیا ہو چکے ہیں جبکہ ہم اپنے آپ کو ایڈسٹ نہیں کر پا رہے بعض شور پسند طبیعتیں بھی ہوتی ہیں۔ اب ان کو کون بتائے کہ پڑوس میں بچے پڑھتے بھی ہیں اور پھر پڑوسیوں کے کچھ حقوق بھی ہیں: وہ یہ کہتا ہے کہ کیا اس نے بگاڑا اپنا ہم کبھی بیٹھ کے سوچیں گے سلامت کیا ہے ویسے بھی اب وہ پڑوسی کہاں رہے ہیں۔ ہمارے محلے میں بھی ایک دو گھر ایسے ہیں جنہوں نے کبھی کسی سے لائق سلائق تو کیا سلام دعا بھی نہیں رکھی وہ سلام کا جواب بھی اجنبیت سے یوں دیتے ہیں کہ دوبارہ جرات نہ کرے۔ خاص طور پر کرایہ دار کھنچے کھنچے رہتے ہیں اور محلے والے بھی کرایہ داروں سے راہ و رسم نہیں بڑھاتے۔ یعنی دونوں دور اندیش ہیں جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے تو پڑوسی کے پڑوسی پر حقوق ہیں خواہ وہ کرایہ دار ہو یا مالک مکان۔ ان حقوق کے بارے میں آقا ﷺ نے فرمایا کہ انہیں خدشہ لاحق ہواکہ کہیں پڑوسی کو وراثت کا حقدار نہ قرار دے دیا جائے۔ جہاں مکانوں کی دیواریں آپس میں ملی ہوتی ہیں اسی طرح دل بھی ملے ہونے چاہئیں۔ کیا اچھا زمانہ تھا کہ پڑوسی بڑی بے تکلفی سے سالن تک پڑوس سے منگوا لیتے بلکہ کوئی میٹھی چیز پکتی تو پڑوس میں بھیجنا اچھا سمجھا جاتا۔ یہ لسی دہی تو عام تھی کہ جو چاہے لے جائے۔ ہمیں ضرورت کی چیز دینے کی تلقین ہے۔ عطاء الحق قاسمی کا شعر یاد آ گیا: شادیاں جب گلی میں ہوتی تھیں سب کے سب میزبان ہوتے تھے کیا کیا جائے کہ بعض لوگ فطرتاً عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اردگرد کو صاف نہیں رہنے دیتے۔ مثلاً گلی کی نکر پر ایک گھر ہے جن کا گٹر آج تک ٹھیک نہیں ہوا۔ وہ یہ اختیار کسی دوسرے کو بھی نہیں دیتے کہ اسے ٹھیک کروا دے۔ نمازی گزرتے ہوئے بہت الجھن محسوس کرتے ہیں کہ گیٹ بند ہونے کے باعث تنگ راستے میں کھڑے پانی سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک دن میں نے ان کے پڑوسی سے کہا کہ آپ بھی انہیں سمجھائیں۔ وہ فوراً بولے ‘جناب میں نے کیا سمجھانا ہے وہ تو اپنے چوبارے سے ہمارے کوٹھے پر اپنا گند پھینک دیتے ہیں۔ میں تو سن کردم بخود رہ گیا۔ مجھے ایک پنجابی محاورہ اچانک یاد آیا’’لائی اگر نہ ہووے گھر والا تے چندرا گوانڈ نہ ہووے‘‘ یعنی گھر والا کانوں کا کچا نہ ہو اور پڑوسی کنجوس نہ ہو‘ یہ کنجوس ہونا بھی اللہ کی طرف سے عذاب ہی ہے۔ میرے دوست واجد صاحب کہا کرتے تھے کہ میں اپنے ایک دوست سے اس لئے چائے نہیں پیتا کہ چائے پلانے کے بعد اس کے چہرے پر جو اوازاری اور اذیت ہوتی ہے وہ مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ فراخدل لوگ ہی مزے کے دوست ہوتے ہیں اور پڑوسی بھی۔ لیجئے فراخ دلی سے اعجاز کنور راجا کا شعر یاد آ گیا: ایک مدت سے خریدارئیے خواہش نہیں کی آج بازار کا بازار اٹھا لینے دے ہمیں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر پھل کھائو تو چھلکے باہر نہ پھینکو تاکہ پڑوسی دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو ہو سکتا ہے وہ فروٹ خریدنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ مگر ہمارے ہاں تو دکھاوا پروگرام عروج پر ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ پوش علاقوں میں اگر ایک ہی وقت میں دو پڑوسی باہر نکل آئیں تو اس ڈر سے دوبارہ اپنی کوٹھی میں گھس جاتے ہیں کہ کہیں سلام ہی لینا نہ پڑ جائے۔ اگر پڑوسیوں کا کوئی تصور اب بھی ہے تو اندرون شہر میں ہے۔ غمی خوشی میں وہ اکٹھے ہو لیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں اچھا پڑوسی بن جائوں تو میرا پڑوسی بھی ضرور اچھا بن جائے گا۔ اچھا پڑوسی وہ ہو گا جس کے دل میں خدا کا خوف ہو گا۔ جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو گا۔ وہ یقینا انسانیت سے محبت کرنے والا ہو گا۔ محبت کرنے کے لئے انسانوں کو دھونڈنا نہیں پڑتا۔ سب سے پہلے آپ کا پڑوسی آپ کے قریب ہے۔ بعض پڑوسی دلچسپ بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے دوست نے گھر بنایا تو ادھر ادھر سے چند مرلہ زمین اپنے گھر میں شامل کر لی۔ جب دوسرے لوگ بنانے لگے تو مسئلہ ہوا ۔ بات عدالت تک پہنچی۔ جج نے دوست سے پوچھا کہ آپ نے ان کی زمین اپنے گھر میں کیوں شامل کی؟ وہ صاحب گویا ہوئے سر! ہم جٹ لوگ ہیں حساب کتاب کم ہی آتا ہے۔ مگر اس حساب کتاب میں اپنی زمین دوسرے کی طرف نہیں گئی۔ یہ تو پڑوسی بننے سے پہلے ہی غلط بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ بات یوں ہے کہ بس ہم اچھے پڑوسی ثابت ہوں۔ ایسے نہیں کہ جیسے بھارت اپنے آپ کو ثابت کر رہا ہے کہ آئے دن سرحدوں پر بغیر کسی اشتعال کے فائرنگ کرتا رہتا ہے کشمیر پر قبضہ کر کے بیٹھا ہوا ہے۔ بلکہ افغانستان کی طرف سے بھی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے۔ تاہم پڑوسی وکیل اور پولیس والا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر مسجد ساتھ ہے تو آپ خدا کے پڑوسی ٹھہرے۔ لوگ قبرستان کے پڑوس سے بہت گھبراتے ہیں حالانکہ یہ سہولت کبھی نہ کبھی کام تو آ جاتی ہے دو شعروں کے ساتھ اجازت: دشت کی پیاس بڑھانے کے لئے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لئے آئے تھے ایسے لگتا ہے کہ ہم ہی سے کوئی بھول ہوئی تم کسی اور زمانے کے لئے آئے تھے