پولیس کلچر تبدیل کرنے کی بات اکثر سننے میں آتی ہے۔ حکمران اکثر یہ دعویٰ کرتے سنائی دیتے ہیںکہ ہم پولیس کلچر کو تبدیل کر دیں گے۔ لیکن پولیس کلچر بدستور وہی ہے۔ تھانوں اور چوکیوں میں عوام با لخصوص غریب عوام کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو عرصے سے ہوتا آیا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پولیس کی ذہنیت کو بدلا جا سکتا ہے تو وہ سخت غلطی پر ہے۔ عادت کا بدلنا تقریبا تقریبا محال ہوتا ہے۔ پولیس میں جو نئے لوگ بھرتی ہوتے ہیںوہ پرانے لوگوں کی صحبت میں رہ کر انہی کی طرح ہو جاتے ہیں۔ ایک بار میں نے ایک شریف سے لڑکے کو کانسٹیبل بھرتی کروایا ۔ جس تھانے میں اس کی پوسٹنگ تھی اُس کے ایس ایچ او سے کہا کہ یہ ایک شریف بچہ ہے۔ کسی قسم کا تجربہ اسے نہیں ہے۔ اس کا خیال رکھیئے گا۔ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا،’’آپ بے فکر رہیں۔ چھے آٹھ ماہ کے بعد آپ اسے پہچان بھی نہیں سکیں گے۔ ‘‘ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اب وہ شریف بچہ سب انسپکٹر ہے اور لوگوں کے ساتھ اُس کا برتائو اُسی طرح کا ہے جیسا اُس نے اپنے سینئر زسے سیکھا۔ کہا جاتا ہے : ’’ہر کہ در کانِ نمک رفت ، نمک شد ـ‘‘ ۔ پولیس میں بھرتی ہونے والا ہرشخص اسی روایتی سانچے میں ڈھل جاتا ہے جو تھانہ کلچر سے مخصوص ہے۔ تھانے میں عوام بالخصوص غریب اور مظلوم عوام کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھُپا نہیں ۔ لہٰذا حکمرانوں کا یہ کہنا کہ ہم تھانہ کلچر تبدیل کر دیں گے، جھوٹ اور فراڈ کے زمرے میں آتا ہے۔ اصل مرض کو سمجھے اور اس کا علاج کیے بغیر محض دعوے کرنا سمجھ سے بالا تر ہے، اس حکیم کی طرح جو کہتا ہے ، ’’ میری دوا کھانے کے بعد سو سال کا بوڑھا بھی تیس سال کا جوان بن جائے گا۔ ‘‘ تھانوں میں کیا ہوتا ہے ؟ ایف۔آئی ۔آر لکھنے میں لیت و لعل کیا جاتا ہے ، بے گناہوں کی چھترول کی جاتی ہے، سرِعام رشوت لی جاتی ہے۔ مظلوم کو مجبور کیا جاتا ہے، کہ وہ ظالم سے سمجھوتہ کر لے اور تھوڑے بہت پیسے لے کر معاملہ رفع دفع کر دے ۔ خواتین کی بطورِ خاص تذلیل کی جاتی ہے۔ اگرمجبورا ً ایف آئی آر لکھنی ہی پڑ جائے تو اُس میں ہیرا پھیری کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جن مظلوموں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہ کس در پر جا کر فریاد کریں۔ایک رستہ تو یہ ہے کہ پولیس کے بڑے افسر کے پاس شکایت کی جائے۔ اگر کوئی ایسا کرے تو مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔ چنانچہ لوگ ایسا بہت کم کرتے ہیں اور اگر کر لیں تو پچھتاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی عدالت کا رُخ کیا جائے ۔ ایک غریب شخص کے لئے ایسا ممکن نہیں ہے۔ وہ عدالت تک پہنچنے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا۔ ان حالات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ پولیس کی زیادتیوں کو صبر سے برداشت کر لیتے ہیں۔ بہت سے مظلوم لوگ تھانے کا رُخ ہی نہیں کرتے، کیونکہ ایسا کرنے سے رہی سہی عزت بھی برباد ہو جاتی ہے اور رُوپے کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ اس ساری صورتِ حال کا صرف ایک ہی حل ہے۔ میں مختلف اوقات میں ، مختلف اخبارات میں یہ حل پیش کرتا رہا ہوں لیکن کسی نے توجہ نہیں کی۔ میں مجبور ہوں کہ اس بات کو پھر دہرائوں۔ غور سے سنیے گا۔ ہر تھانے کی علاقائی حدود مقرر ہوتی ہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ ہر تھانے کے علاقے میں شہریوں کے تعاون سے ایک کونسل آف ایلڈرز council of elders تشکیل دی جائے۔ اس کونسل کے معزز ممبرز آنریری کام کریں گے ۔ انہی ارکان میں سے جو زیادہ صاحب، حیثیت ممبر ہو وہ اپنے گھر میں دفتر کی جگہ مہیا کر دے۔ کونسل آف ایلڈرز میں ؎کوئی ریٹائرڈاعلیٰ رینک کا پولیس آفیسر ، ایک ریٹائرڈ جج، ایک سینئر ایڈووکیٹ ، علاقے کی کوئی با اثر متموّل کاروباری شخصیت، ایک ریٹائرڈ پروفیسر، ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ، ایک عالمِ دین۔ خواتین کی نمائندگی کے لئے ریٹائرڈ پرنسپل یا پروفیسر ، ایک سنیئر ڈاکٹر، ایک دیانتدار اور نامور صحافی۔ لیجیے جناب ، تقریبا دس افراد پر مشتمل اس کونسل کو ایک ایسے ادارے کی حیثیت حاصل ہوگی جہاں ہر وہ شخص جا سکتا ہے جس کی تھانے میں شنوائی نہیں ہوئی ۔ یہ کونسل اس شخص کی شکایت سن کر ایک رپورٹ تیار کرے گی ۔ ایک قانون کے ذریعے اس کونسل کو وہی اختیارات دیے جائیں جو انگریزی دور میں پنچائیتوں کو حاصل تھے۔ اس رپورٹ کو اعلیٰ حکام تک پہنچا دیا جائے ۔ اور اس کی سفارشات پر عمل در آمد کیا جائے۔ جب کسی شخص کا کیس عدالت میں پہنچے تو عدالت کے سامنے بھی اس رپورٹ کی نقل ہونی چاہئے تا کہ منصف کو پتا چل سکے کہ کیا سچ ہے ۔ بہر حال ہونا یہ چاہیے کہ کسی شہری کو انصاف کے حصول کے لیے مالی نقصان برداشت نہ کرنا پڑے ۔ کونسل آف ایلڈر ز کی موجودگی میں پولیس رشوت نہیں لے سکے گی۔ کیونکہ متعلقہ شخص کونسل کے سامنے ہر بات کا ذکر کر دے گا۔ میں نے ایک ریٹائرڈ ڈی آئی جی صاحب سے اپنی تجویز کا ذکر کیا تو وہ فرمانے لگے تجویز بہت اچھی ہے۔ لیکن اس ملک میں اس تجویز پر کبھی عمل نہیں ہو سکے گا۔ محکمہ پولیس اور اس کے افسران یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ ان کے اختیارات میں کوئی اور شریک ہو جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے پولیس کو سیاست زدہ کر دیا ہوا ہے، اکثر اوقات پولیس کو حکومتی غنڈہ فورس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر مجرموں کو ایم پی ایز ، ایم این ایز اور منسٹرز کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے لہٰذا اس قسم کی کونسل کی تشکیل کر کے وہ اپنے پائوں پر کبھی کلہاڑی نہیں ماریں گے۔ جج حضرات کے سامنے وہی حقائق پیش کیے جاتے ہیں جو پولیس چاہتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ہمارے حکمران ہی یہ نہیں چاہتے کہ تھانہ کلچر تبدیل ہو ۔ پولیس کی موجودہ صورت حال انہیں سُوٹ کرتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کام کے لئے محتسب صاحبان ہیں ۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ ہزاروں لاکھوں شکایات کی موجودگی میں محتسب صاحبان اپنے فرائض اچھی طرح انجام نہیں دے سکتے اور اگر کسی شکایت کا ازالہ ہو بھی جائے تو بہت دیر لگتی ہے۔ محتسب صاحبان کے لئے ہر شکایت کے پس منظر کو سمجھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا اور یوں شکایت کنندگان یا تو انصاف سے محروم رہتے ہیں یا انہیں بڑی دیر سے انصاف ملتا ہے۔ میری تجویز کردہ کونسل میں ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کونسل کے ممبران کے پاس نہ صرف زیادہ شکایات نہیں ہوں گی بلکہ وہ اس علاقے میں رہنے والے شہریوں کے پس منظر سے اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ جلد ہی حقیقتِ حال کو سمجھ کر صحیح فیصلے پر پہنچ جاتے ہیں۔