جب کوئی قوم‘ قوم بننے سے پہلے ہی قومیتوں میں بٹ جائے تبھی وہ بحثیں چھڑتی ہیں اپنی شناخت کی کہ پنجابی کوفی ہیں یا نہیں اور اپنے حقوق کی کہ مہاجر صوبہ کا مطالبہ کرنا مہاجروں کا حق ہے یا نہیں اور اس مطالبے پر لعنت بھیجنا جمہوری اخلاق و ضابطے کے مطابق درست ہے یا نہیں۔ ان بحثوں میں ایک پہلو تو شدید تاسف اور مایوسی کا ہے کہ جن مباحث کو اب تک طے ہو جانا چاہیے وہ تاحال طے نہیں ہوئے اور اب تک بحث طلب ہیں۔ دوسرا پہلو امیدو نشاط کا بھی ہے کہ فکری اختلافات اور مختلف نقطہ ہائے نظر ان مباحث کے نتیجے میں شاید کسی Synthesisکی شکل اختیار کر لیں۔ یعنی دو یا دو سے زائد نقاط نظر متواتر و مسلسل مکالمے کے بعد رد و قبول کے مرحلے سے گزر کر کسی اتفاق رائے پر تمام ہوں۔ لیکن یہ تو اسی صورت میں ہو گا جب بحث میں شریک فریقین خوش نیتی اور درد مندی سے کسی صحیح نتیجے پر پہنچنا چاہیں گے۔ پنجابیوں کے کوفی ہونے یا نہ ہونے کی بحث اخباری کالموں میں چھڑی ہوئی ہے اور یہ کوئی نئی بحث بھی نہیں پنجاب کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے میرے خیال میں کسی وکیل کی ضرورت نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس صوبے کا مقدمہ اپنے طور پر بہت سے وکیلوں نے لڑا ہے۔ ان ہی میں ایک دانش ور حنیف رامے بھی تھے جنہوں نے برسوں پہلے پنجاب کا مقدمہ کے عنوان سے ایک عدد کتاب بھی تصنیف کی تھی۔ پنجاب نے بیرونی حملہ آوروں کو روکا یا نہیں روکا۔ اس پر کسی طول طویل بحث کی حاجت ہی کیا ہے اس لیے کہ تاریخ کے صفحات پر سب کچھ موجود ہے لیکن اصل بات جو غور طلب ہے وہ یہ کہ حملہ آوروں کی آمد سے خود پنجاب اور ساکنان پنجاب کی نفسیات اور اس کی تہذیب و ثقافت پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ غالباً اس کا بڑا اثر یہ ہوا کہ اہل پنجاب کھلے ڈلے ہو گئے۔ کشادہ دلی اور کشادہ نظری ان کے اندر پیدا ہو گئی۔ وہ تعصب و تنگ نظری جو اپنے خول میں سمیٹے اور بند رہنے کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے جیسے بنگالیوں میں تھی‘ ساکنان پنجاب اس سے آزاد ہو گئے۔ یہ ذہنی اور جذباتی آزادی ہی ہے جس کی وجہ سے پنجاب دوسرے صوبوں کے لیڈروں کو بھی خوش دلی سے بغیر کسی عصبیت کے قبول کرتا رہا ہے۔ یہی فراخ دلی ہے جس کے سبب سے پنجابی اپنے اوپر ہنس سکتا ہے اور اپنی ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے اور اپنے ہی خلاف گواہی دینے کے لیے بھی تیار رہتا ہے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جس نے دورہ پنجاب کے بعد سرسید کو خوش دلی سے اہل پنجاب کو زندہ دلان پنجاب کا خطاب دینے پر مجبور کیا۔ زندہ دل کون ہوتا ہے؟وہ جو حالات کے تاریک رخ کو بھی ایک تعمیری رخ عطا کر کے اسے وجہ تفریح بنا لے اور مایوسی کو قریب بھی نہ پھٹکنے دے۔ راجہ پورس نے اسی وصف سے کام لے کر سکندر اعظم سے اپنی سلطنت واپس لے لی تھی۔ جب فاتح سکندر نے پابہ زنجیر پورس سے پوچھا تھا کہ بتائو تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ تو راجہ پورس نے نہایت اعتماد سے اطمینان قلب کے ساتھ اپنی شکست کا کوئی اثر قبول کیے بغیر جواب دیا تھا’’وہی جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں؟‘‘ارسطو کے شاگرد کو اس فقرے نے جیت لیا۔ اور راجہ پورس شکست کھا کر بھی فتح یاب ہو گیا۔ قدرت جب کسی سے راضی ہوتی ہے تو کوئی بڑا مدبر کوئی بڑا دانش مند عطا کرتی ہے۔ قدرت نے پنجاب کو اقبال لاہوری جیسا دانش مند‘ مدبر عطا کیا جس کی شعری تاثیر اور شاعرانہ تدبر پر ایک زمانہ متفق ہے۔ اس عظیم شاعر کو بھی پنجابیوں سے اس قدر گلہ تو رہا کہ یہ تاویل کے پھندے میں جلد گرفتار ہو جاتے ہیں۔ تاویل کے پھندے میں گرفتار وہی ہوتا ہے جس میں لچک اور کشادگی ہوتی ہے۔ جہاں تک معاملہ سندھ کا ہے۔ یہاں فکر سے زیادہ الجھائو تاریخی حقائق سے کشیدکی جانے والی سیاست اور سیاسی تنگ نظری ہے اور اس کی بڑی ذمہ داری پیپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ کوٹا سسٹم لسانی عصبیت کا بل اور محصورین مشرقی پاکستان کو واپس لانے کی مخالفت یا اس سے بے اعتنائی۔ ان ہی عناصر نے سندھ میں مہاجر اور سندھی شناخت پر اصرار کا بیج بویا۔ پیپلز پارٹی اپنی ساخت و بنیاد میں کوئی متعصب جماعت ہرگز نہ تھی لیکن جمہوری سیاست کی لعنت یہ بھی تو ہے کہ برسر اقتدار جماعت اپنے ووٹ بینک کو بچانے کے لیے راہ عدل سے ہٹ جاتی ہے۔ سندھیوں کو خوش کرنے کے لیے مہاجروں کو نظر انداز ہی نہیں کیا گیا‘ ناانصافی بھی برتی گئی اور اطمینان کا پہلو اس میں یہ تھا کہ کراچی میں کون سا ہمارا ووٹ بینک ہے دو ایک سیٹیں ہیں اور پورا کراچی ویسے ہی پیپلز پارٹی مخالف ہے۔ یہ رویہ آج تک چلا آتا ہے۔ اس رویے نے ایک فاشسٹ پارٹی کو عروج بخشا۔ پارٹی کے لیڈر کو مائنس کرنے کے باوجود ’’مہاجر فیکٹر‘‘ تاحال موجود ہے۔ جو مہاجروں کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔ وہ کراچی صوبہ کا کارڈ کھیل کر ایک طرف مہاجروں کو مہاجر سیاست سے جوڑے رکھنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف اس کارڈ کو دکھا کر حکومت سندھ اور پیپلز پارٹی سے زیادہ سے زیادہ مراعات مہاجروں اور شہر کراچی کے لیے لینا چاہتے ہیں۔ سندھ جو صوفیائے کرام کی سرزمین رہی ہے جس کی برکت سے سندھی عوام میں حد درجہ انکسار‘ عاجزی اور دھیما پن پایا جاتا ہے۔ مگر سندھ میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ ہوں یا دوسرے لیڈران کرام ان کے اندر ایک رعونت اور نرگسیت کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ہمدردی سے مہاجروں کے المیے کو محسوس بھی نہیں کرتے اور اس گرداب سے بھی مہاجروں کو نکالنے کے لیے تیار نہیں جس میں مہاجر پھنس گئے ہیں۔یہ جو کہا گیا کہ مہاجر پہاڑوں کا ٹوٹا ہوا وہ پتھر ہیں جس کا مقدر ٹھوکریں کھانا ہے۔ بظاہر تو یہ فقرہ مہاجروں کی تذلیل و توہین کے لیے اور ان کی حقیقت بتانے کے لیے ادا کیا گیا۔ لیکن کیسی ستم ظریفی ہے کہ یہی احساس تو ہے جس نے کراچی کے مہاجروں کی اکثریت کو ایم کیو ایم میں پناہ لینے پر مجبور کر رکھا ہے۔ بجائے اس کے کہ وزیر اعلیٰ صوبے کے منتظم اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے یہاں کے شہریوں کا اعتماد حاصل کرتے‘ ان کا دل جیتتے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائے کرام ان کے زخموں پر مہم رکھتے۔ اس جارحانہ طرز عمل نے ایک بار پھر مہاجر لیڈروں کو موقع سے فائدہ اٹھانے اور اپنی سیاست چمکانے کی راہ ہموار کر دی ہے ورنہ حقیقت حال تو یہ ہے کہ سندھی عوام خواہ وہ شہری ہو یا دیہی آج بھی وڈیروں اور ان موقع پرست‘ لالچی اور کرپٹ سیاستدانوں کے رحم و کرم پر ہیں اور ان کی حالت کراچی کے مہاجروں سے بھی بدتر ہے۔ یہ لیڈران کرام اپنے صوبے کے عوام کا درد بھی اپنے اندر نہیں رکھتے تو انہیں مہاجروں سے کیا ہمدردی ہو گی۔ وہ صرف دولت اور وسائل کے بھوکے ہیں اور اس معاملے میں ایم کیو ایم کے ماضی کے لیڈروں کی بے حسی‘ خود غرضی اور مفاد پرستی سے کسی طرح مقابلے میں پیچھے نہیں۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو گی کہ مجھ جیسا آدمی بھی جو پنجابی‘ سندھی اور مہاجر اصطلاحات میں سوچتا ہی نہیں ہے اسے بھی ان ہی اصطلاحوں میں گفتگو پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ قومی سیاست اتنی ہی متعفن و مکروہ ہو گئی ہے۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی بھی صوبہ ہو اور کوئی زبان بولنے والے ہوں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس سرزمین پر خلق خدا بے پناہ و بے آسرا ہے جسے پیٹ بھر کر کھانا اور تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور سر چھپانے کے لیے چھت میسر نہیں۔ بیمار پڑ جائیں تو علاج اور دوا دارو کے لیے روپے پیسے نہیں‘ مر جائیں تو کفن بھی چندے اور قرضے سے خریدا جائے۔ کسی مقدمے میں پھنس جائیں تو انصاف کے لیے وکیل میسر نہیں ہوتا۔ تھانے میں بند کر دیے جائیں تو کوئی چھڑانے والا نہیں ملتا۔ پورے ملک میں غربت و افلاس اور ناانصافی و استحصال ہی کا راج ہے۔ خدا ہمیں وہ نظر عطا کرے کہ ہم مخلوق خدا کو انسانی ہمدردی کی نگاہ سے دیکھنا سیکھ جائیں۔ یعنی انسانی حوالے ہی سے انسانی دکھوں اور اذیتوں کو دیکھیں اور پرکھیں۔ یہ سندھی‘ پنجابی اور مہاجر وغیرہ کیا ہوتا ہے؟ پیٹ سب کے ساتھ لگا ہے اور محتاجی و مجبوری سے کون مبرا ہے۔ جب تک ہم یہ انسانی نقطۂ نظر اور انسانی حوالہ کو اپنا بیانیہ بنائیں گے۔ سیاست کی الجھی ہوئی ڈور بھی الجھی ہی رہے گی۔ ملک میں جو حقیقی اور واقعی بحران ہیں وہ تضادات سے بھرے ہیں۔ جمہوری قوتوں کی غیر جمہوری قوتوں سے لڑائی کا معاملہ ہو یا لسانی‘ صوبائی اور مذہبی آویزشوں اور تنازعات و ٹکرائو کی صورت حال ہو‘ ان سب کا اس کے سوا اور کوئی حل ہی نہیں کہ ہم ہر معاملے کو انسانی حوالے سے عدل و انصاف کی عینک لگا کر دیکھیں۔ انسان دکھی ہے‘ انسانیت بے پناہ ہے انسان محترم ہے اور انسانیت ہی مقدس ہے اور انسان‘ انسان ہی کی حیثیت میں خلق کیا گیا تھا اور آج بھی اس کی اولین حیثیت‘ درجہ اور شناخت بطور انسان ہی کے ہے۔ یہ عقیدے اور نظریات‘ زبان اور ثقافت کے اختلافات بعد کی حقیقتیں ہیں جنہیں اپناتا اور اختیار کرتا ہے اور جب انسان مظلوم‘ مجبور اور مجروح ہو تو سارے اختیارات اور تنازعات کو بالائے طاق رکھ کر سوچنا ہی تقاضائے انسانیت ہے۔ ؎ خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا ساری بحث کا مرکزی نقطہ اور حاصل کلام یہی ہے!