پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے بجٹ سیشن کے دوران پارلیمنٹ کے اندر اور بعدازاں مختلف شہروں میں جلسوں کا اعلان کیا ہے۔ کئی ہفتوں کے وقفے کے بعد پی ڈی ایم کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز شریک ہوئیں۔ نوازشریف‘ اسحاق ڈار اور اختر مینگل بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس کا حصہ بنے۔ اپوزیشن کی دو اہم سیاسی جماعتیں اے این پی اور پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے اختلاف کی وجہ سے اس اجلاس میں شریک نہ ہوئیں۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو نکال کر بچا کھچا اپوزیشن اتحاد اپنی الگ سے سیاسی قدر کا تخمینہ لگانے کے لیے نئی احتجاجی تحریک شروع کرنے کا سوچ رہا ہے۔ یہ امر اپنی جگہ باعث حیرت ہے کہ ملک میں جب کورونا کی وبا خطرناک ہو چکی ہے اس وقت جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام کر کے کیا مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس وقت روزانہ کورونا سے جاں بحق افراد کی تعداد ستر کے لگ بھگ رپورٹ ہورہی ہے۔ ہر روز جن افراد میں کورونا کی تشخیص ہورہی ہے ان کی تعداد اڑھائی ہزار سے زائد ہے۔ حکومت نے مرحلہ وار ویکسین لگانے کا عمل شروع کردیا ہے۔ اب 19 سال تک کے افراد کورونا ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ حکومت انتظامی سطح پر جو سہولیات فراہم کر سکتی تھی وہ سب بروئے کار لائی جا رہی ہیں۔ ویکسی نیشن سنٹروں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے‘ کائونٹرز میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ویکسین کی نئی خوراکوں کے حصول کا نظام بہتر ہوا ہے۔ حالیہ عیدالفطر سے قبل کورونا کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا۔ روزانہ ساڑھے چار ہزار مریض رجسٹر ہورہے تھے‘ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ پہنچ چکی تھی۔ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے سخت اقدامات کئے۔ بازار بند کروائے گئے‘ پبلک ٹرانسپورٹ ایک ہفتہ بند رکھی گئی‘ لوگوں کو پارک اور تفریحی مقامات پر جانے سے روکا گیا‘ اس کے نتیجے میں صرف لاہور میں جو شرح 23 فیصد تھی وہ 13 فیصد تک آ گئی۔ ہمارے ہمسایہ بھارت میں کورونا کی ہلاکت خیزی خوفناک دکھائی دے رہی ہے۔ روزانہ مرنے والوں کی تعداد چار ہزار سے اوپر ہے‘ کروڑوں لوگ اس موذی مرض کے شکار ہیں۔ شمشان گھاٹ اور قبرستانوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ ہسپتالوں میں بیڈ اور آکسیجن کی دستیابی مشکل ہورہی ہے۔ لوگ کرسیوں‘ چٹائیوں اور گاڑیوں میں پڑے ہیں۔ یہ صورت حال اس نہج پر اس لیے پہنچی کہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت نے طبی ماہرین کے مشورے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے متعدد ریاستوں میں انتخابی مہم جلسے اور جلوسوں کے ذریعے چلائی۔ بھارت میں مودی اور ان کی حکومت کو کوسا جارہا ہے‘ انکی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آیا ہے۔ بی جے پی کو اکثر ریاستی انتخابات میں بری طرح شکست ہوئی اور عوام میں مرکزی حکومت کے خلاف اشتعال بڑھ رہا ہے۔ سیاسی فوائد کے لیے عوام کی زندگی کو دائو پر لگانے کی وجہ سے مودی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس کے آغاز میں کورونا پاکستان میں پھیلنے لگا۔ حکومت نے اپنے وسائل کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی وضع کی۔ آگاہی مہم‘ احتیاطی تدابیر کی تشہیر‘ اجتماعات پر پابندی‘ کاروبار کے اوقات میں کمی اور دیگر اقدامات کئے گئے۔ اس دوران مولانا فضل الرحمن اور میاں نوازشریف کے درمیان حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ ہوا۔ اس تحریک کو ایک بڑے اور متفقہ پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے کے لیے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ مولانا فضل الرحمن اور میاں نوازشریف عمران خان سے سیاسی کی بجائے ذاتی مخاصمت کے دائرے میں داخل ہو چکے ہیں‘ دونوں چاہتے ہیں کہ حکومت کا فوری خاتمہ ہو‘ اس کے لیے وہ کسی بھی نوع کی قیمت ادا کرنے کو آمادہ نظر آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور ان کی چند ساتھی دیگر اپوزیشن جماعتیں جمہوری عمل کا تسلسل چاہتی ہیں‘ جمہوری نظام کے درست کام نہ کرنے کی شکایت انہیں بھی ہے لیکن وہ غیر آئینی انداز سے حکومت ہٹانے کے نتائج سے آگاہ ہیں۔ مولانا اور میاں نوازشریف کے اصرار پر پی ڈی ایم نے ملک بھر میں حکومت مخالف جلسوں کا اہتمام کیا‘ فائدہ کی بجائے ان جلسوں سے اختلافات بڑھے۔ بعدازاں اسمبلی سے استعفوں کے معاملے پر نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں اختلاف شدید ہوگیا۔ یہ اختلاف سینٹ انتخابات اور پھر یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بنانے سے مزید بڑھ گیا۔ اس مرحلے پر پی ڈی ایم سے نون لیگ اور مولانا فضل الرحمن کی ایما پر پیپلزپارٹی و اے این پی کو اظہار وجوہ کے نوٹس بھیجے گئے۔ اس پر دونوں جماعتوں نے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی۔ قومی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن شہبازشریف نے ضمانت پر رہائی کے بعد معاملات کو سیاسی انداز میں چلانے کی کوشش کی مگر خود ان کی جماعت ان سے اختلاف کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں پاکستان کی معاشی صورت حال کے اشاریئے بہتر ہوئے ہیں۔ عوام نظام پر اعتماد کر رہے ہیں۔ کورونا میں کمی آنے لگی ہے۔ پاکستان کا عالمی کردار ابھرتا نظر آنے لگا ہے۔ ان حالات میں احتجاج کا مقصد ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور وبا کی شدت میں اضافے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ پی ڈی ایم میں شریک جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کو سیاسی مفاد کی خاطر پاکستان کے عوام کو بھارتی شہریوں کی طرح خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔