پہلی ملاقات کی ایک جھجھک ہوتی ہے اوراگر ملاقات ایسی ہو کہ جس میں شوق و نیاز کی کرم فرمائی بھی ہو تو انسان کچھ سِوا ہی تیاری کرتا ہے۔ یہ تو رہی روبہ رو ملاقات، آدھی ملاقات بھی اگر پہلی ہو تو اس کا اہتمام بھی کچھ کم نہیں ہوتا۔ میری عمر کے لوگ وہ زمانہ جانتے ہیں کہ جب خط کو آدھی ملاقات کہا جاتا تھا۔ احباب کو، اقرباء کو‘ اپنے پیاروں کو خط لکھے جاتے اور نامۂ شوق کا تو خیر اہتمام ہی کچھ جدا ہوتا۔ شاعر نے کہا تھا۔ پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے نئے پرندوں کو اڑنے میں وقت تو لگتا ہے پچھلے دو روز سے میں بھی انہی کیفیات کا اسیر ہوںکہ پڑھنے والوں کے نئے حلقہ سے مکالمہ درپیش ہے۔ پہلی ملاقات، پہلا نامۂ شوق ۔ کیا لکھاجائے اورکدھر سے آغازہو ۔ کچھ سِوا اہتمام چاہتا ہوں۔ لڑکپن سے قلم ہاتھ میں ہے اور اب کہ بالوں کی سفیدی کن پٹیوں سے اوپر چڑھنے لگی ہے مگر لگتا ہے کہ آج ہی قلم تھاما ہے۔پرندہ نیا نہیں کالم ،فیچر، کہانی، ناول،ناولٹ،انٹرویو،خاکہ نویسی کے اصناف میں پروازکا خوگر ‘مگر زیرِ نظر تحریر کی پرواز کو آسمان نیا ہے۔کالم کونصاب کے طور پڑھا اور چودہ برس سے خود برت رہا ہوںمگر مجھے ’’کالم‘‘ کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں ملی۔ میری نظر میں کالم وہ فری سٹائل تحریر ہے جو کالم نگار، پڑھنے والوں سے مخاطب ہو کر لکھتا ہے۔جیسے چائے کے کپ پر گفت گو ہورہی ہو‘جیسے خط لکھا جارہا ہو۔ کالم نگار کو اپنی تحریر میں نظر آنا چاہئے ‘کبھی ضمیرِ شخصی کی صورت اورکبھی بین السطور۔ یک طرفہ ہی سہی مگر کالم ایک طرح کا مکالمہ ہے، خشک، بے جان، چٹیل اور اصطلاحات سے بوجھل تحریر نہیں۔ یوں بھی دل کی باتیں کرنے کو تراکیب و اصطلاحات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اوپر مکتوب نگاری کا ذکر ہوا تو سچی بات یہ ہے کہ اس کالم نگار کی تحریری مشق میں خطوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ یادش بخیر! ایک زمانہ ایسا ہو گزرا ہے کہ محلہ میں آنے والے ڈاکئے کے تھیلے میں روزانہ دس بارہ خطوط میرے نام کے ہوا کرتے تھے۔ اتنے خطوط پانا اور پھر ان کے جواب لکھنا بجائے خود ایک قلمی مشق تھی۔ یہ قلمی دوستی کے خطوط ہوتے ۔ برقی ڈاک، میسنجر، ٹوئٹر، واٹس ایپ، انسٹاگرام کے اس دور میں قلمی دوستی جیسے مرکبات اجنبی ہیں۔ دفاتر میں، تعلیمی اداروں میں قلم گریز ماحول(Penless Enviornment)کا بڑا چرچا ہے۔ اخبارات کے دفاتر بھی قلم کے لئے اجنبی دیار بنتے جارہے ہیں۔ رپورٹر نے ، مضمون نگار نے فون پر، لیپ ٹاپ پر ٹائپ کر کے فارورڈ کردیا،ایڈیٹر نے سکرین پر پڑھا ۔ سکرین پر ہی وہ تحریر صفحہ نمبر فلاں فلاں پر چسپاںہوئی اور آگے پریس کی طرف چلی گئی۔ کی بورڈ پر کھیلتی رپورٹر، ایڈیٹر، کاپی پیسٹر کی انگلیوں نے نہ قلم کا لمس پایا، نہ کاغذ کا۔ پریس سے جو اخبار چھپ کے نکلا تو قاری کو کاغذ کا لمس میسر ہوا۔ اخبار کی تہوں میں بسی روشنائی اور نیوز پرنٹ کی خوش بو کو بھی بس اب مہمان ہی جانئے۔ وہ مہمان جو اپنا سامان باندھ رہا ہے اور رخصت ہونے کے قریب۔ چند ہی برسوں میںہم اخبار بھی سکرینوں پر ہی پڑھا کریں گے۔ چھپائی کی مشینوں سے گزرتے ہوئے روشنائی کا لبادہ اوڑھتے اور کاغذ پر مکاں پاتے حروف کی اپنی خوش بو ہوتی ہے۔ وہ خوش بو جو وقت کے ساتھ ساتھ شیڈز بدلتی ہے مگر ختم نہیں ہوتی۔ تازہ چھپے ہوئے اخبار کی تہیں کھلنے پر اٹھتی مہک اور کسی لائبریری کی شیلفوں کے پاس سے گزرتے ہوئے آنے والی میٹھی باس۔ دونوں میں فرق ہے مگر خوش بو بہرحال موجود رہتی ہے۔ ہم سکرین کے مخالف نہیں۔ تبدیلی آکر رہا کرتی ہے اور اسے اپنانا بھی پڑتا ہے مگر ستم یہ ہے کہ سکرین پر اخبار، کتاب پڑھتے ہوئے خوش بو نہیں آتی۔ مطالعہ کے دوران حسِ شامہ کے حصے میں جولطف آتا ہے، سکرین وہ نہیں دے سکتی۔ ایک زمانے میں بچوں اور نوجوانوں کے رسائل و جرائد میں قلمی دوستی کا ایک کالم ضرور ہواکرتا تھا۔ تصویر کے ساتھ نام، عمر، تعلیم، مشاغل اور پتہ وغیرہ چھاپا جاتا۔ لڑکپن میں شائد ہی کوئی مقبول رسالہ ہو جو میری نظروں سے بچ پاتا ہو۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو دور دورتک پھیلے ماضی کے دیار میں خود کو کسی گرائونڈ میں، گلی میں کھیلتا ہوا نہیں پاتا، ایک ہی شوق تھا ، رسالے اور کہانیوں کی کتابیں۔ آج بھی کم و بیش یہی عالم ہے۔ اب وقت کم نکلتا ہے پڑھنے کو مگر کتابیں خریدتا رہتا ہوں۔ اوپر والے کمرے میں جو دو الماریاں اور کتنے سارے کارٹن کتابوں سے لبالب ہیں، وہ میں نے بڑے شوق سے خریدی ہوئی ہیں لیکن ان میں سے اکثر نہیں پڑھیں۔ سوچتا ہوں، زندگی ہوئی توریٹائرمنٹ کے بعد انہی محبوبائوں کے درمیان آخری ایام بسر کریں گے۔ واللہ عالم۔ ان رسائل میں اپنا تعارف چھپوانا اور کالم میں چھپے اپنے ہم عمر لوگوں کو قلمی دوستی کے لئے خط لکھنا بھی دل پسند مشغلہ تھا۔ ایک وقت آیا کہ میری ڈاک اتنی ہوگئی کہ اباجی کی نظروں میں آگئی۔ انہوں نے ڈانٹا کہ سارا وقت فضول خط لکھنے میں ضائع کرتے رہتے ہو۔ پھر میں نے اختر لائبریری اور سہیل بک سنٹر کا پتہ دینا شروع کردیا ۔ ان دونوں سے میں ناول کرائے پرلا کر پڑھا کرتا تھا۔ اب یہ دونوں ہی لائبریریاں نہیں ہیں۔ سہیل بھائی اور اختر بھی پتہ نہیں کہاں ہیں۔ بہرحال قلمی تربیت میں ان خطوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ میں پرانی ڈگر کا بندہ ہوں۔ آج بھی قلم سے لکھتا ہوں۔ سال بھر پہلے چند کالم میں نے اپنے موبائل پر لکھے مگر قلم اور کلپ بورڈ پر لگے کاغذ کے لمس سے عاری وہ تحریریں لکھنے میں نہ تو میرا دل شامل تھا اور نہ روح۔ سو پھر سے قلم تھام لیا۔ آپ کے نام یہ پہلی تحریر بھی قلم سے لکھ رہا ہوں۔ فائونٹین پین نہ سہی پوائنٹر ہی سہی مگر اس میں لمس تو ہے۔ وہ لمس جس کے ساتھ میرا کم و بیش چاردہائیوں کا رومان ہے۔ اس رومان کو آج اِک نئے دیار میں متعارف کرانا مقصود ہے۔ میں روزنامہ 92نیوز کے پڑھنے والوں کی جانب قلمی دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ پیار کا یہ پہلاخط جیسا بھی بے ربط وبے رنگ ہے، اسے قبول کریں گے۔ ٭٭٭٭٭