جن لوگوں نے عامر خان کی مشہور فلم تھری ایڈیٹ دیکھی ہے انہیں اسکا آخری کلائمیکس منظر یاد ہوگا جو ایک حسین و جمیل قدرتی جھیل کے کنارے فلمایا گیا ہے۔پانچ اور چھ مئی کوچین اور بھارت کے فوجیوں میں جن پانچ مقامات پر جھڑپیں ہوئیں ان میں ہمالیہ کے پہاڑوں میں گھری یہ جھیل بھی ہے جسے’ـ پین گونگ سو‘ کہتے ہیں (سو کے سین پر زبر ہے) ۔دونوں ملکوں کی فوجیں تین ہفتوں سے یہاں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ یہ کوئی معمولی خوبصورت جھیل نہیں بلکہ خطّہ کی سیاست اور سلامتی میں اہم مقام رکھتی ہے۔ سطحِ سمندر سے چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع پین گونگ سو جھیل لدّاخ کے شہر لیہہ سے مشرق کی جانب چوّن کلومیٹرپر واقع ہے ۔ یہ دشوار گزار مسافت پانچ گھنٹے میں طے ہوتی ہے۔چھ سو مربع کلومیٹر پر پھیلی یہ جھیل لداخ کے نہ بالکل شمال میں ہے نہ جنوب میں بلکہ درمیان میں ہے۔ ایک سو چونتیس کلومیٹر طویل یہ جھیل مشرق میں چین کے صوبہ تبت سے نکل کرمغرب کے جانب لداخ کے ضلع لیہہ تک آتی ہے۔اس کی چوڑائی مختلف مقامات پر دو سے چھ کلومیٹر تک ہوجاتی ہے۔ دسمبر سے اپریل تک اسکا پانی برف بن جاتا ہے۔اس پر سکیٹنگ کی جاتی ہے‘ پولو کھیلی جاتی ہے۔ اکسائے چِن(تبت) میں اسکا پانی میٹھا ہے‘ لداخ میں کھارا۔ جھیل کے ایک سو کلومیٹر حصّہ پر چین کا قبضہ ہے‘ باقی حصہ پر بھارت کا۔ چین کا دعوی ہے کہ پوری جھیل تبت کا حصہ ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ پوری جھیل اسکی ہے۔ پین گونگ سو جھیل کے شمال میںہمالیہ کے سنگلاخ‘بنجرپہاڑ ہیں۔ کئی مقامات پر اس پہاڑی سلسلہ کے جھیل کے اندرکی طرف انگلی کی شکل میںسِرے نکلے ہوئے ہیں۔ چین اور بھارت کی فوجیں ان پہاڑی انگلیوں سے جھیل کے مختلف مقامات کا تعین کرتی ہیں۔پہلی انگلی مغرب میں بھارت کے زیرِ قبضہ علاقہ سے شروع ہوتی ہے۔ انیس سو باسٹھ میں اس جھیل پر قبضہ کے لیے دونوں ملکوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی تھی۔ بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جھیل کے بیشتر حصہ پر چین کا قبضہ ہوگیا تھا۔ دونوں ملکوں کی فوجیں جدیدجنگی کشتیوں کے ذریعے اس جھیل میں گشت کرتی ہیں۔ بھارت آٹھویں انگلی کوعارضی سرحد یا لائن آف ایکچوئل کنٹرول قرار دیتا ہے جبکہ چین دوسری انگلی کو۔حالیہ جھڑپ پانچویں انگلی پر ہوئی۔ چین کی فوجیںجھیل میں اپنے سابقہ مقام سے آٹھ سے دس کلومیٹرآگے تک بڑھ گئی ہیں۔ انہوں نے متصل پہاڑ پر اپنی چوکیاں بنا لی ہیں۔بھارت پہاڑ کی دوسری انگلی تک محدود ہوگیا ہے۔یُوں اس محاذ پرتقریباً چالیس مربع کلومیٹر کاوہ علاقہ بھارت کھو چکا ہے جسے وہ اپنا حصّہ سمجھتا تھا ۔ چین کے لیے پین گونگ سو جھیل کی اہمیت اکسائے چِن کے علاقہ کی وجہ سے ہے جہاں اس جھیل کا مشرقی حصہ واقع ہے۔اکسائے چن اڑتیس ہزار مربع کلومیٹر کی ہموار سطح مرتفع ‘ ایک برفانی صحرا ہے۔ اسکی آبادی صرف دس ہزار ہے لیکن فوجی اعتبار سے بہت اہم مقام ہے۔ بھارت کا دعوی ہے کہ یہ اسکا علاقہ ہے‘ لداخ کا حصہ ہے ۔ گزشتہ سال اگست میں بھارت نے لداخ کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے اپنی یونین کا حصہ قرار دیا تو چین نے اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دیا تھا۔ بھارت کی حکمران جماعت کے رہنماؤں نے دعوے کیے تھے کہ وہ اکسائے چن کو بھی چین سے لیکر بھارت میں شامل کریں گے۔ ان اعلانات سے چین میں تشویش پیدا ہوئی کہ بھارت کے ارادے خطرناک ہیں۔ خاص طور سے ایسے حالات میں جب بھارت امریکہ کا قریبی اتحادی بن چکا ہے۔بھارت کے ان توسیع پسندانہ ارادوں کو ناکام بنانے کی غرض سے چین میں پیشگی اقدام کے طور پر جھیل میں پیش قدمی کرکے اسکا اتنا حصہ اپنے کنٹرول میں کرلیا جو فوجی اعتبار سے یہاں اسکی پوزیشن مستحکم کردے۔ چین نے اب جھیل کے جس علاقہ پر قبضہ کیا ہے وہ اونچائی پر واقع ہے ۔ یہاں سے اسکی فوجیں بھارتی فوجوں کی نقل و حرکت اور فوجی تنصیبات پر نظر رکھ سکتی ہیں۔ جھیل کے شمال میںبھارت کی ایک بڑی فوجی پوسٹ ہے۔ جھیل کے قریب ہی چوشول وادی ہے ۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاںسے اُنیس سو باسٹھ میں چین کی فوجوں نے حملہ کرکے بھارت کی پٹائی کی تھی۔ اسی وادی میں بھارت نے جنگی جہازوں کے لیے ائیر فیلڈ بنایا ہوا ہے۔ چین کے لیے پین گونگ سو جھیل بہت تزویراتی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے مشرق میںچین کا صوبہ تبت واقع ہے جہاں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے جسے بھارت ہوا دیتا آیاہے۔ تبت کے علیحدگی پسند بھارت میں مقیم ہیں۔ تبت کی جلاوطن حکومت بھارت میں قائم ہے۔اگر چین اس جھیل پر بھارت کا قبضہ تسلیم کرلے تو اسکا مطلب ہے کہ تبت بھی کسی وقت اسکے ہاتھ سے نکل سکتا ہے کیونکہ تبت اور چین کے صوبہ سنکیانگ کو ملانے والی بڑی شاہراہ اس جھیل کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ گزرتی ہے۔ اسے چائنہ نیشنل ہائی وے (این ایچ 219) کہا جاتا ہے۔ جب چین نے انیس سو پچاس کی دہائی میںیہ سڑک بنائی تھی اس وقت بھارت نے اس پر اعتراض کیا تھا جس کے باعث انیس سو باسٹھ کی جنگ چھڑی تھی۔ چین کے لیے جھیل کے بیشتر حصہ پر قبضہ سنکیانگ اور تبت کو ملانے والی شاہراہ کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ تین سال پہلے بھی اس جھیل میں چین اور بھارت کے فوجیوں نے جھگڑا کیا تھا۔ تاہم فائرنگ کی بجائے ایک دوسرے کو مکے ‘ تھپڑمارے تھے‘ ککیں ماریں تھیں‘ پتھراؤ کیا تھا۔ لکڑی کے ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے ایک دوسرے پر حملے کیے تھے۔ اس بار بھی فائرنگ نہیں ہوئی۔ اسی طرح لڑائی ہوئی لیکن فرق یہ تھا کہ اس بار چینی فوجیوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ زیادہ جارحانہ موڈ میں تھے۔ بھارتی فوجیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔اب بھارت نے بھی مزید فوجی بھیج دیے ہیں لیکن اسکے فوجی اگر آگے بڑھتے ہیں تو بڑی لڑا ئی شروع ہوسکتی ہے۔ فی الحال دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں۔بھارت کا مخمصہ یہ ہے کہ موجودہ پسپائی کی پوزیشن کو عارضی سرحد مان لے تو ملک میں نریندرا مودی کی بڑی رسوائی ہوگی اور اگرآگے بڑھنے کی کوشش میں جنگ ہوجاتی ہے تو بھارت کا بڑا نقصان ہوگا‘ فوجی اعتبار سے بھی اور معاشی طور سے بھی۔