مریم نواز اور ان کے والد بزرگوار نے اگرقومی و بین الاقوامی قانون‘ جمہوری روایات اور آئینی ساخت کو کسی استاد سے پڑھا اور سمجھا ہوتا تو انہیں اندازہ ہوتا کہ سیاست میں شخصیات کو چیلنج کیا جاتا ہے ریاست کو نہیں۔ بدقسمتی سے مریم نواز کا سیاسی ٹیلنٹ ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔ قصور میاں نوازشریف کا ہے جنہوں نے بر وقت اپنے سیاسی جانشین کا فیصلہ نہ کیا۔ وہ پہلے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو تیار کرتے رہے۔ بچے بڑے ہوئے تو بیگم کلثوم نواز نے اپنی اولاد کو آگے لانے پر اصرار کیا۔ میاںصاحب اہلیہ کی مانتے تھے۔ حالات نے کروٹ لی سارا خاندان معاہدہ کے نتیجے میں سرور پیلس جدہ میں رونق افروز ہوا تو حمزہ شہباز کو بطور ضمانت لاہور میں چھوڑ گئے۔ حمزہ کے گرد پارٹی کا رکن جمع ہونے لگے اور قدرت نے انہیں تایا کی سیاسی وراثت کا حقدار بنا کر آگے بڑھنے کا موقع دیا۔ حمزہ کی تقریر کا انداز والد کی بجائے تایا سے مماثل ہے۔ حمزہ شہباز کو والد کی جانب سے عملی سیاست کی سوجھ بوجھ ملی۔ وہ جانتے ہیں کس جگہ اور کس کے سامنے مزاحمت کرنا ہے اور کہاں خاموشی سے کام چلانا ہے۔ شہباز شریف بہت سے انقلابیوں کو جانتے ہیں اس لیے ان سے دور رہتے ہیں‘ ایسے عناصر کے لیے نووارد مریم آسان سیڑھی تھیں۔ اولاد کی محبت بعض حالتوں میں فتنہ کہی گئی ہے۔ خصوصاً جب ضروری تربیت کے بنا اولاد کوئی بڑی ذمہ داری یا عہدہ مانگ لے۔ مریم تو خیر سیانی عمر کو کب کی پہنچ چکی ہیں، بے نظیر بھٹوپچیس برس کی تھیں جب ان کے والد کی جان لی گئی۔ بھائی ریاست کو چیلنج کرنے کی راہ پر چل نکلے‘ بے نظیر بھٹو نے ہوا کا رخ پڑھا۔ امریکہ کی سخت مخالف نے امریکہ کے خلاف بیان بازی روک دی‘ ان کی تنقید کا ہدف صرف جنرل ضیاء الحق اور ان کے چند ساتھی تھے۔ نظام ایسی مشین ہوتا ہے جو بیک وقت کئی پرزے تیار کرتا ہے۔ سیاستدان جنم لیتا ہے تو ساتھ ہی مخصوص افسر شاہی‘ سکیورٹی ادارے اور سماجی و معاشی چیلنج ابھرتے ہیں۔ مشیروں‘ دوستوں اور کام کے لوگوں کی ایک کھیپ ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہے۔ خاندان اور موروثی جمہوریت میں تو خاص طور پر ایسا ہوتا ہے۔ مسلم لیگ نون آج اسی کے عشرے کی سیاست کر رہی ہے،نئی روایات اس کے پاس نہیں۔ مسلم لیگ نون کو ان دنوں مولانا فضل الرحمن کا سہارا ہے۔ مولانا کی سن لیں فرمایا کہ اگر ایوانوں کی سیاست کرنا تھی تو پی ڈی ایم کیوں بنائی۔ مولانا بہت سادہ ہیں‘ انہیں معلوم ہی نہیں کہ پی ڈی ایم پیپلزپارٹی نے نہیں خود انہوں نے بنائی تھی‘ پہلے نوازشریف کو قابو کیا پھر ویلیو ایڈیشن کے لیے پی پی پی کو حصہ بنا کر خود صدر بن گئے۔ سیاسی و جمہوری حصہ دیکھا جائے تو مولانا کو صدارت ملنا کسی طور پر درست نہیں لگتا۔ اللہ بھلا کرے مولانا کے سابق رفیق حافظ حسین احمد کا جنہوں نے بتا دیا کہ نوازشریف خاندان نے چار سے پانچ ارب روپے مختص کئے ہیں۔ مولانا کو گزشتہ برس لانگ مارچ کے لیے شریف خاندان سے ستر کروڑ کے لگ بھگ رقم ملنے کی مبینہ اطلاعات ہیں۔ حافظ حسین احمد کے بقول تین روز قبل جاتی عمرہ میں مریم سے ملاقات مولانا کو سوا ارب روپے ملنے کا ذریعہ ہے۔ مولانا کو اتنی بڑی رقم اگر میاں نوازشریف دے رہے ہیں تو اس کی کوئی وجہ بھی ہو گی۔ چند روز ہوئے ،آصف علی زرداری نے میاں نوازشریف کو فون کیا۔ شاید معاملات کو بہتر کرنا چاہتے تھے۔ اطلاع ہے کہ نوازشریف نے فون سننے سے انکار کردیا‘ وہاں موجود اسحاق ڈار نے کال اٹینڈ کی اور ایسا لب و لہجہ اختیار کیا جو نامناسب تھا۔ آصف زرداری نے فون منقطع کردیا۔ وہ یہ نکتہ ہے جہاں سے پیپلزپارٹی نے متبادل اپوزیشن اتحاد بنانے کا سوچا۔ نواز شریف تک آصف زرداری کے حوالے سے جو شکایت پہنچی وہ مریم کی زبانی تھی۔ بلاول بھٹو لاہور آئے اور منصورہ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے ملاقات کی۔ جماعت اسلامی سینٹ الیکشن اور پھر چیئرمین سینٹ کے انتخابات کے موقع پر خود کو حکومت اور اپوزیشن کے جوڑ توڑ سے دور رکھا۔ وہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں بنے اور نہ حکومت کا ساتھ دیا۔ سراج الحق نے سیاست کو جھوٹ‘ بدعنوانی اور روپے کا کھیل بنانے کے خلاف موقف اپنایا۔ کے پی کے میں اے این پی ایک موثر سیاسی قوت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اے این پی کے رہنمائوں نے سب سے زیادہ جانیں قربان کیں۔ اے این پی کی شناخت نظریاتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے اے این پی سے رابطہ کیا ہے۔ دونوں جماعتوں میں پہلے سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات میں جیت کر دونوں نے بطور اتحادی مرکز اور کے پی کے میں حکومت بنائی۔ پی ڈی ایم میں اے این پی کا کردار نظر انداز کیا گیا۔ پھر مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں نہ جماعت اسلامی پی ڈی ایم کے ساتھ آ سکتی تھی نہ اے این پی کا کردار ابھر سکتا تھا۔ ان دونوں جماعتوں سے اتحاد کر کے پیپلزپارٹی بلوچستان کی جماعتوں سے رابطے شروع کر سکتی ہے بلکہ یہ سلسلہ رابطوں کی سطح سے آگے بڑھ چکا ہے۔ پیپلزپارٹی ایک وفاقی قوت کے طور پر خود کو منظم کر رہی ہے۔ یہ حکمت عملی اسے امید دلا رہی ہے کہ اگلے انتخابات سے قبل یا بعد میں پنجاب کی کچھ قوتیں ساتھ مل سکتی ہے۔ پاکستان کے مروجہ سیاسی فائبر کو سمجھنے کے لیے آصف زرداری نے خاصا وقت صرف کیا ہے۔ اصول بڑا سادہ ہے‘ جمہوریت کو آئین کے ساتھ جوڑے رکھو اور اتحادیوں کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔ وہ ریاست کو چیلنج نہیں کرتے۔ پاکستان کھپے کا یہی مطلب تھا۔ سینٹ میں پیپلزپارٹی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے۔ اگر پی پی نے اپنا امیدوار لانے کا تہیہ کرلیا تو یوسف رضا گیلانی کا قائد حزب اختلاف بننا ناممکن نہیں رہے گا۔ اس سے مسلم لیگ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا منصب حاصل ہونے کا جو فائدہ ہے وہی پیپلزپارٹی کو مل جائے گا۔ نوازشریف نے اولاد سے محبت کی لیکن تربیت درست نہ ہونے پر اولاد بگڑ گئی۔ اب روپیہ لٹانے کے ساتھ دوسری مصیبتوں کا باعث بن رہی ہے۔