جس وقت صدرٹرمپ نے طالبان کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں مذاکرات سے انکار کیا تھا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اب کہ تجدید وفا کا نہیں امکاںجاناںتو عاجز نے عرض کی تھی کہ ملاقات نہ سہی، مذاکرات تو ہو کر رہیں گے چاہے پینٹاگون کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ ایسا ہی ہوا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل کرتے ہی صدر ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو ایک ہاتھ سے بذریعہ ٹویٹ فارغ خطی پکڑائی اور دوسرے ہاتھ سے زلمے خلیل زاد کو اشارہ کردیا کہ ذرا دیکھنا معاملہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ یہ سرمئی پگڑیوں والے جب چاہیں میز الٹ دیتے ہیں۔ تو آپ نے دیکھا کہ کیا ہوا۔ زلمے خلیل زاد بھی پاکستان میں ہیں اور طالبان کا بارہ رکنی وفد بھی یہی بیٹھا ہے۔ حالات بہت بدل گئے ہیں۔ دنیا کو معقولیت کی طرف لوٹنا ہوگا اور طاقت کے مراکز کو عقل کو ہاتھ مارنے ہی پڑیں گے۔یہ اٹھارہ سالہ جنگ نے نہیں، اٹھارہ سالہ مسلسل جہاد نے سمجھایا ہے۔ بے شک جہاد میں نسل انسانی کی بقا ہے۔چاہے پینٹا گون کو کتنا ہی ناگوار گزرے اور صدر ٹرمپ کو بحالت مجبوری ہی سہی، معقول فیصلے کرنے پڑیں۔ حالات واقعی بدل گئے ہیں۔ یہی طالبان تھے،یہی عبدالغنی برادر۔کیا کسی کو بھول سکتا ہے کہ تب طالبان بات کرنا چاہتے تھے۔ مذاکرات ان کی مجبوری نہیں ایک آپشن تھا ۔ تکبر سے بھرے سروں میں مگر ایک ہی خناس تھا۔ تباہ کردو،مار دو ملیا میٹ کردو۔ سویہی کیا بھی گیا۔ طالبان کے موجودہ مذاکراتی وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر آج سے نو سال قبل پاکستان میں تھے۔ وہ اور ان کا خاندان ان مہاجرین میں شامل تھے جو سویت روس کی افغانستان پہ چڑھائی کے بعد کوئٹہ اور اس کے قرب و جوار ہجرت کرگئے تھے۔ انہوں نے کچلاک میں پناہ لی۔سوویت روس کے خلاف جہاد کے لئے پشاور میں جو گروپ بنے ان میں مولوی محمد نبی محمدی کا گروپ حرکتہ الاسلام بھی تھا۔ اس گروپ میں ملا عبدالغنی برادر نے ملا عمر کے ساتھ شمولیت اختیار کرلی۔بعد ازاں اسی گروپ میں ملا عمر اور ملا عبدالغنی برادر نے طالبان کی بنیاد رکھی جس میں حامد کرزئی کے کزن مولانا عبید اللہ بھی شامل تھے۔بعد ازاں جب افغانستان میں متحارب گروپوں نے کشت و خون کی حد کردی اور طالبان ملا عمر کی قیادت میں سامنے آئے تو ملا عبد الغنی برادر تب بھی ان کے دست راست تھے۔جب طالبان کا افغانستان پہ قبضہ ہوا تو ملا برادر کو نمروز اور ہرات کا گورنر بنا دیا گیا۔امارات اسلامی کے مغربی زون کے کور کمانڈر بنائے جانے کے بعد اسلامی فوج کے سپہ سالار اعظم بھی یہی رہے۔جب نائن الیون ہوا اور دنیا بھر کی طاقتیں امریکہ کی سربراہی میںناتواںامارات اسلامی افغانستان پہ پل پڑیں تو مبینہ طور پہ ملا عمر کو موٹر سائیکل بٹھا کر فرار کروانے والے بھی یہی تھے۔دونوں قندھار میں کئی برس روپوش رہے۔ ان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد جب حامد کرزئی نے اپنے آبائی صوبے ازدگان میں پناہ لی تو انہیں طالبان کے حملے سے بچانے والے بھی ملا عبدالغنی ہی تھے۔یہی حامد کرزئی تھے جو جب بون معاہدے کے تحت صدر افغانستان بنائے گئے تو انہوں نے مصالحتی عمل کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنے محسن ملا برادر کو امن کے پیغامات بھیجے جو انہوں نے قبول کرلئے۔ اگر واقعات ایسے ہی ہوئے تھے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ حامد کرزئی نے 2004 ء اور2009 ء میں افغانستان میں کسی کے اشارے پہ امن کی کوشش کی تھی جو کچھ اور طاقتوں کو منظور نہیں تھا۔ اس لئے جب ملا عبدالغنی برادر کوئٹہ شوری سے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کراچی پہنچے تو انہیں پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے دھر لیا۔یہ فروری 2010 کی بات ہے۔ان کی گرفتاری پہ امریکہ نے تو اطمینان کا اظہار کیا لیکن حامد کرزئی نے اسے افسوسناک اور امن عمل میں رکاوٹ قرار دیا۔ تقریبا آٹھ برس پاکستان میں قید وبند کاٹنے کے بعد پچھلے برس اسی ماہ ملا برادر کو رہا کردیا گیا۔ اس دوران مجاہد ذیابیطس کا مریض بن چکا تھا۔ ہم پرائی جنگ میں اپنا آپ جھونک چکے تھے ۔ امن کا ہر عمل ہمارے آقا کو ناگوار گزرتا تھا۔ اسے گوارا ہی نہ تھا کہ جہاد کا نام لیوا یا مزاحمت کی کو ئی چنگاری بھی اس خاکستر میں لو دیتی نظر آئے۔ ہم اس کا پورا پورا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ ملا عبدالسلام ضعیف مجھے کبھی نہیں بھولتے۔ جب انہیں امریکی اور ہمارے اپنے بالترتیب ، تکبر اور مجبوری سے گھسیٹ رہے تھے اور وہ کوئی معمولی شخص نہیں تھا، ایک ملک کا سفیر تھا،تو وہ جولیس سیزر کی طرح یو ٹو بروٹس بھی نہ کہہ سکا اور گوانتا نا موبے کی نارنجی پوشاک پہنے ذلت آمیز تشدد سہتا رہا۔آج یہی تکبر سے بھرے سر، امن کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہی ملا عبدالغنی برادر جسے ہم نے اپنی جیلوں میں ذیا بیطس کا مریض بنا دیا۔پورے وقار اور پروٹوکول کے ساتھ ہمارے دارالحکومت میں بیٹھا ہمارے وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کررہاہے اور دنیا بھر کی نظریں اس پہ لگی ہیں۔کابل میں محصور بیٹھا ، انتخابی سیاست کو اقتدار کا واحد ذریعہ سمجھنے کے باوجود امریکی آشیر باد کے بغیر ایک لمحہ حکومت کرنے کی سکت نہ رکھنے والا اشرف غنی کہتا ہے کہ ایک دہشت گرد گروپ کو پروٹوکول دینا سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے۔ خدا ہی جانے کس دنیا میںکابل کا صدارتی محل واقع ہے جسے یہ بھی علم نہیں کہ یہ طالبان کا وفد نہیں، امارات اسلامی کا وفدہے جو آج بھی قانونی طور پہ تخت کابل کی دعوے دار ہے۔ میدان جنگ میں دعوے انتخابات سے نہیں، جہد مسلسل سے ثابت کئے جاتے ہیں۔ یہ طالبان کی جہد مسلسل ہے جو صدر ٹرمپ کے بظاہر میز الٹ دینے کا شوق پورا کرنے کے بعد ان کا راستہ نہیں روکتی۔ انہیں بیجنگ اور ماسکو سے دعوت نامے وصول ہوتے ہیں اور صدر ٹرمپ کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ زلمے خلیل زاد کو الٹی چھلانگ لگا کر اسلام آباد میں ڈیرہ ڈالنا پڑ جاتا ہے اور مذاکرات کی میز کے نیچے سے ہاتھ ملانے پڑتے ہیں۔ یہ مردان خدا کا فیصلہ ہے جس پہ خدا کا ہاتھ ہوتا ہے کہ آج اسلام آباد میں کوئی جنرل مشرف نہیں عمران خان بیٹھا ہے جو پہلے دن سے کہتا تھا کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے،اس سے نکل آو۔ تم انہیں نہیں جانتے۔ ایک دن آئے گا جب تمہیں ان سے بات کرنی پڑے گی۔تب لبرل اسے طالبان خان کہہ کر ٹھٹھا اڑاتے تھے اور تکبر سے بھرے سر اس کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔آج وہ طاقت کے مراکز کے قلب میں دندناتے پھرتے ہیں اورامریکہ کا صدراپنی ہی فوجی اسٹبلشمنٹ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان کے ساتھ مزاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ اور اسلام آباد میں مزاکرات کے موضوعات کیا ہیں ۔ پروانہ راہداری،صحت ، تعلیم اور امن عمل میں معاونت۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ملکوں کے سربراہ آپس میں کیا کرتے ہیں۔ بے شک جہاد میں ایمان والوں کے لئے عزت ہے۔