جس رات شہر اقتدار کی چمچماتی سڑک پر ایک بدمست تیز رفتار لینڈ کروزر نے مہران گاڑی میں سوار چار غریب نوجوانوں کو روند ڈالا۔ اس سے اگلے روز وفاقی محتسب برائے ہراسانی کشمالہ طارق نے ایک پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے بطور خاص سیاہ رنگ کا ماتمی لباس زیب تن کیا اور انتہائی غمگین لہجے میں میڈیا کے سامنے وضاحت پیش کی کہ اس بدمست لینڈ کروزر کو چلانے والا ان کا صاحبزادہ ہرگز نہیں تھا اور یہ کہ انہیں چار نوجوانوں کی موت پر دلی افسوس ہے اور یہ کہ جس گاڑی سے یہ حادثہ سرزد ہوا وہ ان کے قافلے میں شامل تھی مگر اسے ان کا بیٹا نہیں چلا رہا تھا۔یہ تمام حقائق بتاتے ہوئے وفاقی محتسب برائے ہراسانی کشمالہ طارق آبدیدہ ہو گئیں اور انہوں نے مزید کہا کہ وہ بھی ایک ماں ہیں اور مقتول نوجوانوں کی غمزدہ مائوں سے دلی ہمدردی رکھتی ہیں۔ہائے وہ خستہ حال مکانوں میں دکھ سے اجڑی چار غمزدہ مائیں۔ جنہیں ماتم کرنے کے جدید اطوار بھی معلوم نہیں۔ وہ سیہ نصیب مائوں کے کلیجے‘ گاڑی نے روند ڈالے تو انہیں سیاہ ماتمی لباس پہننے کی کہاں فرصت تھی۔ان کی دنیا اجڑ گئی ان کے جگر گوشوں کے بدن شہر اقتدار کی سڑک پر لہولہان ہو گئے۔ ان مائوں کی پرانی میلی چادروں میں صرف بے بسی غربت اور بے کسی کے ٹانکے لگے تھے، سو انہیں اپنے لعل و جواہر کے قاتلوں کے ساتھ راضی نامہ کرنا پڑا۔ مقتول محمد فاروق کے بے بس والدین کا قاتلوں سے کیا ہوا راضی نامہ اشٹام پیپر پر لکھے ہوئے لفظ نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے بس اور مجبور پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والی کھلی ناانصافی کا نوحہ ہے۔طاقت ‘ عہدہ‘ دھونس اور دولت کے سامنے غربت اور بے بسی دست بستہ عرض کرتی ہے۔ آپ ہمارے مائی باپ ہیں ہمارے بیٹے کی یہ مجال کہاں تھی کہ سکینڈ ہینڈ مہران گاڑی میں سوار ہو کر شہر اقتدار کی اس سڑک پر آ جاتا جہاں سے آپ جناب کے قافلے نے گزرنا تھا۔آپ کی لینڈ کروزر کا حق تھا کہ وہ تیز رفتار بھی ہوتی اور ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی کرتی ہوئی اس چھوٹی مہران گاڑی پر چڑھ دوڑتی جو اپنے تئیں ٹریفک کے اشارے پر رکی ہوئی تھی ،قصور سراسر ہم غریبوں کی اولادوں کا ہے اس گاڑی کو آپ کے صاحبزادے ہرگز نہیں چلا رہے تھے۔ مدعی زخمی مجیب نے جو بھی دیکھا وہ بھی سرابر جھوٹ تھا۔ ہمیں آپ سے کوئی گلہ نہیں۔آپ کی گاڑیوں کے قافلے کے راستے میں آنا ہی ہمارا سب سے بڑا قصور تھا۔ مقتول اپنے قتل کے خود ذمہ دار ہیں۔ ناانصافی اور زوال کی گھاٹی میں لڑھکتا ہوا معاشرہ ہے جہاں قتل اگر اشرافیہ کے ہاتھوں سے ہو جائے تو وہاں مقتول اپنے قتل کا خود ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے پورا نظام اہل اختیار کو بچانے کے لئے اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔چار نوجوانوں کی ہلاکت کا یہ اندوہناک واقعہ ماہ فروری کے آغاز میں ہوا۔مہران گاڑی میں پانچ نوجوان سوار تھے چار جاں سے گزر گئے، زخمی ہونے والے مجیب اس واقعے کا مدعی تھا جس کے مطابق مہران گاڑی کو کچلنے والی لینڈ کروزر کشمالہ طارق کا بیٹا اذلان چلا رہا تھا۔ یہ پہلا سچ تھا جو سامنے آیا باقی کی تمام کوششیں اس سچ کو چھپانے کے لئے کی گئیں۔ عہدے‘اختیار دھونس اور دولت سے حقائق بآسانی چھپا لیے گئے کہا گیا گاڑی اذلان نہیں ڈرائیور فیض اللہ چلا رہا تھا۔ صرف ایک لمحے کے لئے سوچیں اگر گاڑی کشمالہ کا بیٹا نہ چلا رہا ہوتا تو کس کی جرأت تھی کہ امیر زادے کا نام اس قتل میں آتا۔ چاروں نوجوانوں مانسہرہ کے رہنے والے تھے۔ عمریں ایسی کہ جب زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش اور کچھ پانے کے خوابوں سے دل ہمہ وقت گلزار بنا رہے تھے ،معاشی آسودگی کی دھن سوار تھی۔ انسداد منشیات کے محکمے میں سرکاری نوکری کے حصول کے ابتدائی مراحل طے کر چکے تھے اب انٹرویو باقی تھا اور یہ وہ مرحلہ تھا جب خواب اڑان بھرنے کو بے تاب تھے۔فارق حیدر‘انیس اور عادل۔غریب بے بس مائوں کے شہزادے شہر اقتدار میں دولت دھن اور دھونس کے تیز رفتار پہیوں کے نیچے کچلے گئے، اور المیہ یہ ہے کہ ان کے مجبور والدین نے اپنی عمر بھر کی کمائی اجاڑنے والوں سے دست بستہ معافی مانگ کر راضی نامہ کر لیا ہے۔ تازہ ترین خبر ہے کہ دومقتولوں کی طرف سے راضی نامہ ہو چکا ،تیسرے سے بات چیت جاری ہے اور چوتھے کے بارے میں ابھی کوئی اطلاع نہیں۔ دولت اور دھونس کی آندھیوں میں بے بس اور مجبوری کے چراغ کہاں جلتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے منشور میں سماجی انصاف ،غریب اور امیر کا ایک پاکستان بنانے کا ایجنڈا سرفہرست تھا ۔چار پاکستانی شہریوں کی جان لینے والے گاڑیوں کے بدمست قافلے کو اتنی سزا تو ملتی کہ کشمالہ طارق سے اس عہدے سے استعفیٰ لے لیا جاتا اور پھر اس چوہرے قتل کی شفاف تحقیقات تو ہوتیں۔ دست قاتل پر کچھ گرفت تو پڑتی چاہے اس کا حاصل بعد میں مقتولوں کا راضی نامہ ہی ہوتا جو کہ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ہر ایسے کیس میں ایک روایت بن چکا ہے۔افسوس یہ ہے کہ کشمالہ طارق وفاقی محتسب کے عہدے پر اب بھی براجمان ہیں۔ محتسب کیا ہوتا ہے عوام کے معاملات کی نگرانی کرنے والا۔ میزان پکڑنے والا اور دو فریقوں میں انصاف کا معاملہ کرنے والا ک۔شمالہ طارق کا اس عہدے پر رہنا کسی طور جائز نہیں۔انہیں اس سانحے کے بعد خود استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا مگر وہ اب بھی خیر سے وفاقی محتسب ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ اب بھی صف معتبر میں ہیں۔؟ اس سے زیادہ اس پر کیا کہا جائے۔ میڈیا اس سانحے کو بھلا دے گا۔ حالات کی ڈگڈگی پر لکھنے والے ہم کالم نگار اسے بھول جائیں گے مگر غم و اندوہ کے خستہ حال مکانوں میں بیٹھی‘ چار غربت زدہ اجڑی مائیں اس قتل کو کبھی نہیں بھولیں گی۔ انصاف کرنے والے پروردگار کو اپنا وکیل بنا کر وہ روز حشر انصاف کی منتظر ہوں گی۔