سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ایک دوسرے پر الزام تراشی اور ہنگامہ آرائی کے بعد مکمل ہو گیا۔ اڑتالیس ووٹ لے کرصادق سنجرانی چیئرمین سینٹ منتخب ہو گئے جبکہ پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ ضائع ہونے پر وہ بتالیس ووٹ لے سکے ۔سید یوسف رضا گیلانی کے پولنگ ایجنٹ فاروق ایچ نائیک نے مسترد ووٹوں کو چیلنج کیا تو اجلاس کے چیئر مین مظفر شاہ نے موقع پر معاملے کے متعلق اپنی رولنگ دیتے ہوئے فاروق نائیک کا موقف مسترد کر دیا۔اس انتخاب کے دوران بعض حیران کن چیزیں دیکھنے میں آئیں۔پی ڈی ایم کے امیدواروں نے پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی قیادت سے ووٹ دینے کی اپیل کی اسی طرح تحریک انصاف کے رہنما جمعیت علمائے اسلام کے رہنمائوں سے صادق سنجرانی کے ووٹ کے لئے اپیل کرنے گئے۔ یہاں تک سیاسی اور جمہوری روایات خوش کن دکھائی دیتی ہیں‘ خرابی کچھ دیگر واقعات نے اجاگر کی۔ اپوزیشن جو سینٹ الیکشن کے لئے خفیہ ووٹنگ کی حمایت کرتی رہی چند روز کے بعد وہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر اوپن بیلٹ کی حمایت کرتی نظر آئی۔ حکومت کا رویہ بھی ایسا ہی رہا۔ معلوم ہوا کہ سیاسی و جمہوری روایات کواپنے مقاصد کے تحت درست یا غلط قرار دینا بھی ایک سیاسی موقف کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ وفاق کا مطلب تمام صوبائی اور وفاقی اکائیوں کی ریاستی نظام میں موثر اور مساوی نمائندگی ہے۔ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو عمومی طور پر اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ہر اکائی کو وفاق کی سطح پر ایسا کردار عطا کیا جائے جو وہاں کی آبادی کے اختیار کی علامت ہو۔اس وقت صدر مملکت سندھ سے ہیں۔وزیر اعظم ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے منتخب ہوئے ہیں‘ سپیکر قومی اسمبلی کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے۔ اس سارے نقشے میں ملکی دفاع اور معیشت کے حوالے سے اہمیت اختیار کرنے والے صوبے بلوچستان کے لئے کوئی قابل ذکر حصہ نظر نہیں آتا تھا۔ حکومت کی جانب سے دیگر پہلوئوں کے ساتھ یہ امر بھی اہم تھا کہ بلوچستان سے منتخب کسی سینیٹر کو چیئرمین بنایا جائے‘اپوزیشن اتحاد اس اہم نقطے کو جانے کیوں فراموش کر بیٹھا۔ بھارت پہلے ہی عالمی سطح پر پروپیگنڈہ میں مصروف ہے کہ بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق نہیں دیے جا رہے۔ بھارت اپنے ایجنٹوں کی مدد سے بلوچ عوام کی مفلسی اور محرومیوں کو ریاست پاکستان کا قصوربتاکر رائے عامہ کو گمراہ کر رہا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صادق سنجرانی کا چیئرمین سینٹ منتخب ہونا ریاست پاکستان اور وفاقی نظام کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ انتخابی عمل کسی منصب کے لئے انتخاب کو غیر متنازع اور شفاف بنانے کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ پاکستان میں سماجی اداروں کی طرح سیاسی جماعتوں نے اس نظام کی وہ تناور شاخیں کاٹنے سے کبھی گریز نہیں کیا جن پر جمہوری نظام نے آشیانہ بنا رکھا ہے۔بلدیاتی انتخابات‘ اسمبلیوں کے انتخاب‘ اراکین سینٹ کا انتخاب اور اب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر دھاندلی‘ ووٹوں کی خریدوفروخت‘ الیکشن کمیشن اور اس کے عملے کی ناکامی‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے بسی اور امیدواروں کی جانب سے تشدد سمیت ہر حربہ آزمانے کے واقعات کا تسلسل شفاف اور پرامن رائے دہی کی جگہ لے چکا ہے۔ سیاسی قائدین سے لے کر کارکن تک ووٹ کی بجائے دھونس اور دھاندلی کو جائز تصور کرتے ہیں۔ صورت حال اور موقع کی مناسبت سے جو موقف کسی کو فائدہ دے سکتا ہے اسے اپنا لیا جاتا ہے‘ یہ نہیں سوچا جاتا کہ چند روز پہلے جو کہا اس کے برعکس رائے دینے پر جماعت اور اس کی قیادت کی ساکھ کیا رہ جائے گی۔ افسوسناک امر ہے کہ جمہوریت کو بے اصول روایات کی شکل دیدی گئی۔ اصول ‘ ضابطے اور قانون کی جگہ پاور پالیٹکس کو رواج دیا جا رہا ہے۔ یہ روایت کم نہیں ہوتی‘ آگے بڑھتی ہے‘ اس کا انجام کسی شکل میں ہو اور یہ پرامن رائے دہی کے خاتمے کی وجہ بن جائے اس پر کوئی فکر مند دکھائی نہیں دیتا۔ سینٹ ووٹنگ سے قبل پولنگ بوتھ میں کیمرے لگانے کا واقعہ بظاہر صرف ایک تنازع کھڑا کرنے کی کوشش دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ جن لوگوں پر اپوزیشن کیمرے نصب کرنے کا الزام لگا رہی ہے وہ اس قدر اناڑی اور کچے ہو سکتے ہیں کہ خفیہ کیمروں کی تاریں باہر چھوڑ دیں تاکہ لوگ آسانی سے پتہ چلا سکیں ۔پارلیمنٹ ہائوس کی اندرونی راہداریوں‘ ہال اور عمارت کے باہر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر نگرانی کے لئے کیمرے نصب ہیں۔ ان کیمروں کی فوٹیج کا معائنہ کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ ہائوس کے دروازے بند ہونے کے دوران یا بعد میں کن لوگوں نے اراکین کے ووٹوں کی خبر رکھنے کے لئے اناڑی پن سے کیمرے لگانے کی کوشش کی۔ چند روز قبل سینٹ انتخابات کے موقع پر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پی ٹی آئی کارکنوں سے الجھنے والے نون لیگ کے ایک رکن نے کیمروں کی ویڈیو شیئر کی ہے۔ اس امر میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ وطن عزیز کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انتخابی عمل کا پلو ہر سطح پر مسلسل تنازعات کے خاروں میں الجھتا نظر آ رہا ہے‘ اداروں کی ساکھ پر عوام میں سوال اٹھ رہے ہیں۔ پوچھا جا رہا ہے کہ اگر جمہوریت کا حسن اس طرح کے گل کھلانے سے ہے تو کیا قوم کسی متبادل سے رجوع کیوں نا کرے؟