دوبرس قبل وہ مجھ سے ووہان میں ملی تھی۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس جنم بھی اسی شہر میں ہوا تھا ۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ جب وہ چھوٹی تھی اس وقت یہ شہر بھی اتنا بڑا نہیں تھا۔ مگر جب میں بڑی ہوتی گئی تب یہ شہر مجھ سے بہت ہی بڑا ہوگیا۔ اس نے نفاست کے ساتھ ازاہ مذاق کہا اور اپنی مذاق پر خود ہنس پڑی۔ اس کی ہنسی تو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ چینی لوگ ہنستے ہوئے زیادہ خوبصورت نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ جب وہ ہنس رہی تھی تب اس کی آنکھیں آدھی بند ہوگئی تھیں۔ اس 27 برس کی خاتون کے چہرے سے ایک پانچ برس کی بچی نمودار ہوگئی۔ وہ بچی جو معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ذہین بھی تھی۔ اس کا نام ڈینگلی تھا۔ وہ ہماری مترجم تھی۔ ایک شام کو جب ہم شہر کے درمیان بہنے والے دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور چین کے لوگ ندی کنارے بنے ہوئے چھوٹے مگر خوبصورت دوکانوں سے اپنی پسند کا مشروب لیکر پی رہے تھے اس وقت مجھے ڈینگلی نے بتایا کہ جس طرح کچھ بچے سوتے میں بڑے ہوتے ہیں ویسے ووہان جاگتے جاگتے بڑا ہو گیا۔ ہر روز اس شہر میں کوئی نہ کوئی خوبصورت اضافہ نظر آتا رہتا ہے۔ مگر جب ووہان میں کرونا وائرس کی وبا پھیلی تب مجھے ڈینگلی کی فکر بہت ستاتی رہی۔ اس نے مجھے اپنی ای میل ایڈریس دی تھی مگر موبائل نہ تبدیل ہونے کے باعث وہ ضائع شدہ ڈیٹا کا حصہ بن گئی۔ پھر مجھے اپنا ایک کولیگ یاد آیا۔ میں نے اسلام باد میں اس کو فون کیا اس کے پاس ڈینگلی کا ای میل محفوظ تھا اور وہ بھی ہماری خوش آداب اور معصوم مترجم کے بارے میں فکرمند تھا۔ میں نے دس دن قبل ڈینگلی کو ای میل کیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ خیریت سے ہے؟ اس کے گھر والے کیسے ہیں؟ ووہان شہر کی صورتحال کیسی ہے؟ وغیرہ وغیرہ اور دوسرے دن میری موبائل پر ڈینگی کی ای میل موصول ہوئی۔ اس نے لکھا تھا: ’’پیارے دوست!میں یہ ای میل نم آنکھوں کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔ میری آنکھوں میں نمی اس لیے نہیں ہے کہ ہم کورونا کی مصیبت میں مبتلا ہیں اور ہم خوف کا شکار ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ ہم چینی لوگ خوف سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمارے ماضی میں بھی خوف توہین سمجھا جاتا تھا۔ انقلاب نے تو اس سوچ کو اور بھی مضبوط کیا۔ ہم ڈرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ میری آنکھوں میں نمی کا سبب آپ کی محبت ہے۔ میں برسوں سے بطور مترجم کام کرتی آئی ہوں۔ مگر وبا کے دنوں میں مجھے کسی غیر ملکی دوست کا ای میل یا واٹس ایپ نہیں آیا۔ مجھے اس بات کا رنج بھی نہ تھا۔ کیوں کہ اس وبا نے پوری دنیا کو اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ رکھا ہے مگر میرے پیارے دوست جب آپ کا میل ملا تو پتھر جیسا دل پگھل گیا۔ میں نے سوچا کہ یہ ایک پاکستانی دوست کی محبت ہے۔ جو میرے بارے میں۔ میری فیملی کے بارے میں اور میری قوم کے بارے میں فکرمند ہے۔ جب کہ ان کا اپنے ملک پر بھی اس وبا کے سائے منڈلا رہے ہیں۔پیارے دوست! اس محبت کا ایک بار پھر شکریہ۔ میں اس وبا سے محفوظ رہی ہوں مگر میرے کچھ رشتہ دار اور چند دوست اس بیماری کا شکار ہوئے۔ ابتدائی دنوں میں تو ہم نے کورونا کو خطرناک وبا نہیں سمجھا مگر جب یہ وائرس پھیلنے لگا تب ہم الرٹ ہوگئے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ پر یقین کرتے ہیں۔ ہم نے اس وبا کے ساتھ جو مقابلہ کیا وہ میں آپ سے شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ ہم اس وبا سے جنگ اس طرح جیتی کہ ہم حواس باختہ نہ ہوئے۔ ہم نے کسی قسم کی افتراتفری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہماری پوری قوم نے فوج کی طرح نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ ہم نہ تو کورونا وائرس سے گھبرائے اور نہ ہم نے کسی قسم کی لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے بہت نظم و ضبط کے ساتھ ان ہدایات پر عمل کیا جو ہماری حکومت مسلسل جاری کرتی رہی۔ ہم کو یقین تھا کہ ہم اس مصیبت سے نکل جائیں گے۔ اور آپ نے دیکھا کہ ہم کورونا وائرس پر غالب آچکے ہیں۔ ہم مذکورہ وبا سے مقابلہ نہ جیت پاتے اگر ہم افراتفری کا شکار ہوتے۔ اس وبا نے نہ صرف ہمارے قومی ڈسپلن کو پھر سے چمکایا بلکہ اس وبا نے ہمیں بہت کچھ نیا سکھایا۔ انسان مصیبتوں سے سیکھتا ہے۔ مقابلہ مشکل ہوتا ہے مگر مقابلے کا اپنا مزہ بھی ہوتا ہے۔ آپ تو اہل قلم اہل ادب ہیں۔ آپ یہ ساری باتیں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ میں کون ہوتی ہوں آپ کے علم میں اضافہ کرنے والی مگر ہماری چینی زبان میں کہاوت ہے کہ ’’اگر سیکھنا چاہے تو ایک ہاتھی چیونٹی سے بھی سیکھ سکتا ہے‘‘ پیارے دوست! اس وبا سے لڑتے ہوئے جہاں دنیا کی ہمدردی اور دوست ممالک کی مدد ملی وہاں کچھ افسوسناک الفاظ بھی سننا پڑے۔ جس طرح امریکہ کے صدر نے کورونا وائرس کو چینی وائرس قرار دیا۔ اس جملے میں جو نفرت اور تعصب کی بو تھی وہ بہت بری تھی۔ اب تو کورونا عالمی وبا بن چکی ہے مگر جب تک اس کا ڈیرہ چین میں تھا اس وقت ایسا بھی محسوس کروایا جاتا تھا جیسے یہ وائرس باہر سے نہیں بلکہ ہم چینی لوگوں کے اندر سے نکلتا ہے۔ پوری دنیا میں ہم چینی لوگوں کو خوف اور ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا مگر ہمیں یقین تھا کہ یہ وقت بھی گذر جائے گا اوروہ وقت گذر گیا۔ اب وہ ووہان جو اس وبا کا مرکز تھا؛ اب وہ ووہان مکمل طور پر محفوظ ہے۔ زندگی اپنے معمول پر آچکی ہے۔ اس وبا کے باعث جو لوگ ہم سے بچھڑ گئے ان کے لیے ہمارے دل میں ہمیشہ دکھ بھرا احساس رہے گا۔ مگر جس طرح آپ ووہان آئے تھے اور جس طرح آپ نے کہا تھا کہ یہ شہر تو روشنیوں سے مسکرا رہا ہے۔ وہ شہر پھر سے مسکرا رہا ہے۔ مگر اس مسکراہٹ میں اداسی کی ہلکی سی نمی ہے۔پیارے دوست! جس طرح آپ میرے لیے اور میرے ملک کے لیے فکرمند ہوئے ویسے میں بھی آپ کے اور آپ کے ملک کے لیے فکرمند ہوں۔ میں ہر دن اخبارات پر نظر ڈال کر جن ممالک کے لیے دل میں فکر محسوس کرتی ہوں ان ممالک میں پاکستان سب سے اوپر ہے۔ وہ ملک ہمارا پڑوسی ہے۔ اس ملک سے ہمیں کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کا ملک معاشی طور پر مستحکم ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وبا سے لڑنے کے لیے آپ کے پاس وسائل اتنے نہیں جتنے ہمارے ملک اور مغربی ممالک کے پاس ہیں۔ مگر میرے دوست میں آپ کو ایک بار پھر یقین دلانے کی کوشش کرتی ہوں کہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے آپ کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے نظم و ضبط۔ آپ بھی ہماری طرح اپنی حکومت کی ہدایات پر عمل کریں۔ آپ نہ کورنا سے ڈریں اور نہ اس سے لاپرواہی کا مظاہرہ کریں۔ کورونا ایک چیلنج ہے۔اس کو عملی طور پر سنجیدگی سے شکست دی جا سکتی ہے۔ ہم نے اس وائرس کا مقابلہ کیا ہے۔ ہم نے اس وائرس سے جنگ جیتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی قوم بھی اس جنگ میں فتح حاصل کریگی۔ آپ اپنا اور اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھیں۔ آپ کی محبت کا ایک بار پھر شکریہ۔ آپ دوبارہ چین آنا ہو تو ہم اس بار صرف ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ ہم گلے بھی ملیں گے۔ کیوں کہ اب ہم اس وائرس سے نجات حاصل چکے ہیں۔ (آپ کی دوست،ڈینگلی‘‘) اس ای میل کو پڑھتے ہوئے بار بار میری آنکھیں نم ہوتی رہیں اور اس کا ٹوٹا پھوٹا ترجمہ کرتے ہوئے بھی کوئی آنسو میرے دامن میں جذب ہوگیا۔ وہ آنسو خوف کا نہیں تھا۔ وہ آنسو احساس محبت کا تھا۔ میں نے اپنی ذاتی میل کو اس لیے کالم کاپیراہن پہنایا کیوں کہ ڈینگلی کی یہ میل چین کی پاکستان کو کی گئی میل ہے۔ اس ای میل کا مرکزی نکتہ وہی ہے جو ہمارے وزیر اعظم بار بار دہرا رہے ہیں کہ افتراتفری کا شکار ہونے کے بجائے ہمیں نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ہم کو چین کے عوام سے سیکھنا چاہئیے کہ مشکل حالات کا کس طرح مقابلہ کیا جاتا ہے اور ان حالات پر قابو پانے کے بعد کس طرح مسکرایا جاتا ہے۔