گزشتہ صدی، نوے کی دھائی میںنجم نعمانی گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے، جو تمام عمر ’تاجدارِ حرم‘ والی نعت کے اصل خالق ہونے کے دعوے دار رہے۔ یہ وہی سکول ہے، جہاں کسی زمانے میں احمد ندیم قاسمی طالب علم اور ن م راشد کے والد فضل الٰہی چوہان ہیڈ ماسٹر ہوا کرتے تھے۔ قاسمی صاحب بتایا کرتے تھے کہ ان دنوں ن م راشد فارغ التحصیل تھے اور جب کبھی والد صاحب سے ملنے شیخوپورہ آیا کرتے، اعزازی طور پر کچھ کلاسز بھی پڑھایا کرتے۔ بات نجم نعمانی کی ہو رہی تھی، انھی دنوں تنخواہوں کا نظام تازہ تازہ کمپیوٹرائز ہوا تھا اور اعداد و شمار میں دلچسپ قسم کی اغلاط سننے میں آتیں۔ نجم نعمانی خود بتاتے تھے کہ ان کی کل تنخواہ00۔4444 روپے تھی، کسی اناڑی یا کھلاڑی اکاؤنٹنٹ کی’ انگشتِ شرارت‘ سے اس تنخواہ میں ایک چوکا زیادہ لگ کے 44444 روپے کا بل پاس ہو گیا، جو اس زمانے میں نہایت معقول رقم تھی۔ موصوف نے بتایا کہ مَیں نے جھٹ رقم نکلوا کے اپنے ذاتی کھاتے میں ڈالی اور شانت ہو کے اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد آڈٹ ہوا تو مجھے ’’کیوں نہ آپ کے خلاف…‘‘ والا سرکاری قسم کا انکوائری لیٹر آ گیا۔ کہتے ہیں مَیں نے اس سرکاری محبت نامے کا مزید محبت کے ساتھ جواب لکھا: ’’ڈئیر سر! مجھے دل و جان سے تسلیم ہے کہ چند ماہ قبل میری تنخواہ کے ساتھ مبلغ چالیس ہزار روپے اضافی موصول ہوئے تھے۔ مَیں انجان یہ سمجھا تھا کہ ہماری حکومت میں خدمتِ خلق کا جذبہ عود کے آیا ہے اور اُس نے میری تیس سالہ سروس کہ جس میں مَیں ایک بھی بے قاعدگی کا مرتکب نہیں ہوا (حالانکہ موصوف اپنے جذبۂ شوق کے ہاتھوں نہ صرف دفتر میں متعدد بار رنگے ہاتھوں پکڑے جا چکے تھے بلکہ ایک دو بار معطلی کا مزہ بھی چکھ چکے تھے) سے خوش ہو کر نہایت خاموشی سے میر ی مدد کی ہے۔ ایک گمان یہ بھی تھا کہ سرکار کو میری کثرتِ اولاد کا احساس ہو گیا ہے اور یہ اسی سلسلے کی اعانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راقم نے رقم موصول ہوتے ہی ایک بیٹی کی شادی کر دی اور ایک کار خرید لی، لیکن آپ کے اس خط نے تو میرے سارے ارمانوں پر پانی اور حیرانی پھیر دی ہے۔ میری زندگی بھر کی خدمات اور توقعات کو نظر انداز کر کے میرے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔ اب آپ سے دست بستہ استدعا ہے کہ یا تو میری اس خوش گمانی کا مان رکھتے ہوئے مجھے یہ رقم معاف کر دی جائے یا چارصد روپے ماہانہ قسط مقرر کر دی جائے۔ بندۂ ناچیز بھاری دل کے ساتھ آپ کا یہ قرض لَوٹا دے گا… احقر… نجم نعمانی ………… شیخوپورہ میںمیٹرک کے سالانہ متحان کے پریکٹیکل چل رہے تھے۔ اکبر بازار والے سکول میں میری دونوں باجیوں کی دو بیٹیاں اس عمل میں شریک تھیں۔ مجھ سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ مَیں چونکہ اسی محکمے سے متعلق ہوں، اس لیے کسی سے کہہ دوں۔ مَیں بالعموم ایسی خدمتِ خلق سے گریز کرتا ہوں لیکن فریقین کے یہ باور کرانے پر کہ پریکٹیکل امتحان میں سفارش ضروری ہوتی ہے، با دلِ نخواستہ امتحانی مرکز پہنچا۔ ملازم سے سپرنٹنڈنٹ سے ملوانے کے لیے عرض گزاری، اس نے کام پوچھا تو بتایا کہ دو بچیوں کے لیے رحم کی اپیل داخل کرنی ہے ۔ تھوڑی دیر بعد ایک محترمہ تشریف لائیں، جو چہرے مُہرے سے سپرنٹنڈنٹ بالکل نہیں لگتی تھی۔ سلام دعا کے بعد بولیں: آپ سدرا اور عمارہ کے لیے آئے ہیں۔ یہ جملہ سننے کے بعد مَیں تو گویا حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ علمِ نجوم کو ہتھیلی پہ سرسوں کی مانند جمانے کا مظاہرہ پہلی بار دیکھا تھا۔ ڈرتے ڈرتے محترمہ سے اس اِلقا و اِلہام کی بابت دریافت کیا تو بولیں: ’’پورے سنٹر میں یہی دو لڑکیاں رہ گئی تھیں، جن کی ابھی تک سفارش نہیں آئی تھی۔‘‘ ………… پروفیسر الطاف صاحب انگریزی کے پروفیسر تھے اور شیخوپورہ میں ہمارے کولیگ۔ نہایت قابل اور بھلے مانس آدمی تھے لیکن بولنے اور جملے کی ادائیگی میں عجلت (جو کبھی کبھار لکنت کی حدود میں داخل ہو جاتی) کی عادت راسخ ہو چکی تھی۔ اس لیے بچے ان کی کلاس سے غیر حاضری یا تاخیر کے بہانے ڈھوندتے رہتے۔ ایک بار بچوں کا ایک گروہ ان کی دوپہر والی کلاس میں تاخیر سے داخل ہوا تو انھوں نے ڈانٹ کر دیری کی وجہ پوچھی۔ ایک بچے نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ نماز کے لیے گئے تھے، وضو والی جگہ پہ رش تھا، اس لیے لیٹ ہو گئے۔ وہ اسی عاجلانہ، قاہرانہ اسلوب میں گویا ہوئے: رش تھا تو تم وضو کی بجائے تیَم یَم کر لیتے۔ بس تیمم کی جگہ تَیم یَم کا اُن کی زبان سے ادا ہونا تھا کہ جب تک وہاں رہے، پورے کالج میں ’’سر تَیم یَم‘‘ کے نام سے جانے جاتے رہے۔ ………… سیالکوٹ کینٹ کے ایف جی کالج میں ہماری نئی نئی تعیناتی تھی۔ کالج میں تدریس کے ساتھ کبھی کبھی تفریح کا بندوبست بھی کیا جاتا۔ منگلا ڈیم کے لیے ایک ٹرپ روانہ ہو رہا تھا۔ میڈم نائلہ خالد جو کیمسٹری کی استاد تھیں، ساتھ اپنے چار سالہ بچے کو بھی لے آئی تھی۔ بچہ ہمارے ایک ذہین اور شریر طالب علم طاہر (جس کی بابت شنید ہے کہ آج کل کراچی میں بریگیڈئیر کے عہدے پہ تعینات ہے ) کی انگلی تھامے چل رہا تھا۔ بس کی طرف جاتے ہوئے بچے کو ہلکی سی ٹھوکر لگی، جس سے بچہ ذرا لڑکھڑا گیا، طاہر کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’ہائے میرا پریکٹیکل!‘‘ ………… اکبر بازار شیخوپورہ کے اسی سکول کے ایک اور سالانہ امتحان کا واقعہ ہے کہ مشتاق اعون جو خالصتاً ’’مَیں بال کھڈاواں بی بی دے‘‘ والی قابلیت کی بنا پر پنجاب میں سینئر وزیر کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کی بیٹی اسی سنٹر میں دسویں کا امتحان دے رہی تھی لیکن اس کروفر کے ساتھ کہ سٹی مجسٹریٹ اور آنریبل لیڈی میمونہ مشتاق سنٹر کے سامنے کھڑے ہو کر وفادار ملازمین کے ذریعے وقفے وقفے سے بوتلیں، چپس اور مطلوبہ سوالات بھجوا رہے تھے۔ یہ منظر پورے شہر نے دیکھا۔ کسی صحافی کو ڈر یا زر کے پیشِ نظر خبر بنانے کی جرأت نہ ہوئی ۔ پروفیسر افضل علوی، جو مشتاق اعوان کے سکول کے زمانے کے کلاس فیلو تھے۔( ان کے بقول کلاس میں لمبے قد اور خمیدہ کندھوں کی بنا پر فیلوز انھیں’ بڈھا ‘کہہ کر پکارتے) کہنے لگے: ’’اس بڈھے کو ساری عمر عقل نہیں آئی۔ اسے اتنا بھی شعور نہیں کہ اتنا بڑا عہدہ ہو تو مجسٹریٹ کی نہیں بورڈ کے چیئرمین کی خدمات لی جاتی ہیں۔‘‘ حاصلِ واقعہ یہ کہ اس سارے تردد اور’ محنت‘ کے باوجود بیٹی میٹرک کے امتحان میں فیل ہو گئی۔ لالہ بسمل نے سچ ہی تو کہا تھا: تعلیم کی تاثیر کی تعظیم ہم پہ لازم ہے دوستو! پر پہلے تو تعلیم ہم پہ لازم ہے